بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار زیادہ قیمت پر فروخت کرنا / شرح نفع کی کیا حد ہے؟


سوال

١۔ جس سے میں جانور لے رہا ہوں ۔اس کا کہنا ہے  کہ اگر نقد  دیے  تو 2100 سو روپے ۔ اگر سات مہینے  بعد  دیے تو  3500پینتیس سو روپے لوں گا ، کیا اتنا منافع جائز ہے ؟

٢۔ کتنا فیصد منافع رکھنا جائز ہے مثال کے طور پے اگر میں نے ایک چیز ١٠ روپے میں خریدی ہے تو اس کو کتنے میں بیچنا چاہیے؟

جواب

1-  صورتِ  مسئولہ میں سوداکرتے وقت نقد یا ادھار میں سے کسی ایک کو متعین کرنا شرعًا ضروری ہوگا، عقد کے  وقت ادھار کے تعین کے بعد سات مہینے کے ادھار   پر باہمی راضا مندی سے   3500 میں  مذکورہ جانور کی خرید و  فروخت جائز ہوگی، ادھار فروخت کرتے ہوئے زیادہ قیمت مقرر کرنا شرعًا ممنوع  نہیں، بشرطیکہ ایک قیمت متعین کردی جائے اور مقررہ وقت سے تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کے نام سے اضافہ وصول نہ کیا جائے۔ 

2۔   شریعتِ  مطہرہ نے خرید و فرخت میں  شرح نفع  کی کوئی ایسی حد مقرر نہیں کی ہے کہ جس سے زائد وصول کرنا ممنوع ہو، تاہم   اتنا نفع وصول کرنا جو خریدار پر بوجھ بنے یہ درست نہیں ہے، اسی طرح غذائی بحران میں غذائی اجناس کی قیمت زیادہ وصول کرنا درست نہیں ہے، اور عام اشیاء کی خرید و فروخت میں مارکیٹ میں رائج  شرح نفع سے زائد وصول کرنے سے اجتناب کرنا  چاہیے، تاہم اگر باہمی رضامندی  سے شرح نفع سے زائد نفع   اگر کسی نے وصول کرلیا تو یہ حرام نہ ہوگا۔

المبسوط للسرخسی میں ہے:

’’وإذا عقد العقد علی أنه إلی أجل بکذا وبالنقد بکذا أو (قال:) إلی شهر بکذا وإلی شهرین بکذا فهو فاسد؛ لأنه لم یعامله علی ثمن معلوم ولنهي النبي ﷺ یوجب شرطین في بیع، وهذا هو تفسیر الشرطین في البیع، ومطلق النهي یوجب الفساد في العقد الشرعیة، وهذا إذا افترقا علی هذا ... فإن کان یتراضیان بینهما ولم یتفرقا حتی قاطعه علی ثمن معلوم وأتما العقدَ فهو جائز؛ لأنهما ما افترقا إلا بعد تمام شرط صحة العقد الخ‘‘ (المبسوط للسرخسي، ٨ / ١٣ )

بدائع الصنائع میں ہے:

’’وکذا إذا قال: بعتك هذا العبد بألف درهم إلی سنة أو بألف وخمسمائة إلی سنتین؛ لأن الثمن مجهول ... فإذا علم ورضي به جاز البیع؛ لأن المانع من الجواز هو الجهالة عند العقد وقد زالت في المجلس وله حکم حالة العقد، فصار کأنه کان معلوماً عند العقد وإن لم یعلم به حتی إذا افترقا تقرر الفساد‘‘. (بدائع الصنائع ، ٥ / ١٥٨)

مزید تفصیل کے  لیے دیکھیے:

ادھار خرید و فروخت میں شرح منافع

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144206200680

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں