بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

دفتری مشاغل کی وجہ سےنمازکوقضاکرنا


سوال

میں ایک خاتون ہوں اور ایک ایسے دفتر میں کام کرتی ہوں جہاں صرف مرد ہی ہوتے ہیں جبکہ میری ڈیوٹی شام 4 بجے ختم۔ہوتی ہے اور کچھ وقت گھر آتے آتے لگ جاتا ہے۔ایسی صورت میں اگر دفتر کے کام اور ماحول کی وجہ سے ظہر کی نماز وقت پہ نہ ادا ہوسکے تو کیا قضا نماز بعد میں پڑھ سکتے ہیں؟

جواب

واضح رہے کہ دنیاوی مصروفیات نماز کی وجہ سے نماز کو قضاءکرنا جائز نہیں ہے،نماز کو بلا عذرِ شرعی اپنے وقت سےمؤخر کرکے پڑھنا گناہِ کبیرہ ہے،اس  لیے آفس میں کسی کنارے پر نماز پڑھنے کا اہتمام کریں،ارادہ مضبوط ہوتواللہ تعالی عمل کی صورت بھی بنادیتےہیں۔

اس لیے ظہر کی نماز کو مستقل قضاء کرنا اوراس کی عادت بنا لینا جائز شرعاجائزنہیں ۔

البحرالرائق میں ہے:

"فالأصل فيه أن كل صلاة فاتت عن الوقت بعد ثبوت وجوبها فيه فإنه يلزم قضاؤها سواء ‌تركها ‌عمدا أو سهوا أو بسبب نوم وسواء كانت الفوائت كثيرة أو قليلة...ثم ليس للقضاء وقت معين بل جميع أوقات العمر وقت له إلا ثلاثة وقت طلوع الشمس ووقت الزوال ووقت الغروب فإنه لا تجوز الصلاة في هذه الأوقات."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب قضاء الفوائت، ج:2،ص:86، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی شامی میں ہے:

"باب قضاء الفوائت لم يقل المتروكات ظنا بالمسلم خيرا، إذ ‌التأخير ‌بلا ‌عذر ‌كبيرة لا تزول بالقضاء بل بالتوبة أو الحج.

(قوله لا تزول بالقضاء) وإنما يزول إثم الترك، فلا يعاقب عليها إذا قضاها وإثم التأخير باق بحر.(قوله بل بالتوبة) أي بعد القضاء أما بدونه فالتأخير باق، فلم تصح التوبة منه لأن من شروطها الإقلاع عن المعصية كما لا يخفى فافهم."

(كتاب الصلاة، ‌‌باب قضاء الفوائت، ج:2، ص:62، ط:دارا لفكر)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144604101489

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں