بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

اولاد کی اپنے مال سے خریدی ہوئی جائیداد پر کس کی ملکیت ہوگی؟


سوال

 میرے والدین زندہ ہیں، ہم 7 بھائی  اور 4 بہنیں ہیں ،ہم سب اکٹھے رہتے تھے 2010 میں، گھرکے اخراجات بھی  ہر بھائی پر تھوڑے تھوڑے تھے، مثلاً : میں گھر کا کرایہ دیتا تھا اس میں بڑا بھائی مستثنیٰ تھاکیوں کہ اس نے ہم سب  کی تعلیم کا خرچہ برداشت کیا تھا،تو اس وجہ  سےہم سب  اس کی قدر کرتے تھے،اُس وقت انھوں نے پلاٹس لئے، بڑے بھائی کا الگ 5مرلے،3 بھایئوں نے 2.5مرلے اکٹھا لیا، ٹوٹل 15 مرلے بنتے ہیں،اور وہ انسٹالمنٹ پر لیے تھے، میرے پاس اس وقت استطاعت نہیں تھی، اور میرا موقف یہ تھا کہ باقی بہن بھائی کیا کریں گے؟ لیکن اس نے لے لیے، اب میرا بھی 10 مرلے پلاٹ ہےلیکن گاؤں میں،باقیوں کے  شہر میں ہیں ، باپ دادا کی  اپنی  زمین ہے ، لیکن ہم اجتماعی رہتے تھے اور اخراجات بھی اکٹھے تھے۔ میراث میں اس زمین  کا حصہ سب کا ہوگا، یا جس نے لیا ہے اس کا ہوگا؟ 

وضاحت:

1) سب بھائی الگ الگ کماتے تھے اور کام بھی مشترک نہیں تھا،لیکن ہر  ایک بھائی پر اپنے حصے کا خرچہ ملانا لازم تھا،مطلب  گھر کا کرایہ ایک بھائی دیتا تھا ،باقی اخراجات الگ الگ کے سپرد تھے۔ 

2) آمدن ایک جگہ جمع نہیں ہوتی تھی ،لیکن اخراجات گھر کے حساب کے مطابق ایک جیسا تھا ،اور پلاٹ الگ الگ کمائی سے لیے تھے۔

3) والدین زندہ تھے ،بڑا بھائی سب کو اپنا اپنا حصہ گھر میں ڈالنے کو کہتا  اور سب ایک ساتھ رہتے تھے اور خرچہ بھی ایک جیسا تھا ،لیکن بڑا بھائی گھر کے اخراجات سے مستثنیٰ تھا۔

4) 15 مرلے ایسے بنے کہ ہم سات بھائی ہیں ،دو دو بھائیوں نے مل کر 5،5 مرلے لیے تو 6 بھائیوں نے 15  مرلے لیے میرے علاوہ ۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں جو جائیداد سائل اور اس کے بھائیوں نے اپنی محنت اور کمائی سے خریدی ہے اور اسے اپنی ملکیت میں رکھا ہوا ہے وہ سائل اور اس کے بھائیوں کی ہی ملکیت  میں رہے گی ،والدین یا کسی اور بھائی بہن کا اس میں حصہ نہیں ہوگا اور نہ ہی وہ جائیداد والدین کے انتقال کے بعد ان کا ترکہ شمار ہو کر تمام ورثاء میں تقسیم ہوگی البتہ جو زمین والدین کی ذاتی ملکیت ہے وہ ان کے انتقال کے بعد تمام ورثاء کے درمیان ان کے شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی ۔

العقود الدریۃ فی تنقیح الفتاوی الحامدیۃ میں ہے:

"(أقول) وفي الفتاوى الخيرية سئل في ابن كبير ذي زوجة وعيال له كسب مستقل حصل بسببه أموالا ومات هل هي لوالده خاصة أم تقسم بين ورثته أجاب هي للابن تقسم بين ورثته على فرائض الله تعالى حيث كان له كسب مستقل بنفسه.

وأما قول علمائنا أب وابن يكتسبان في صنعة واحدة ولم يكن لهما شيء ثم اجتمع لهما مال يكون كله للأب إذا كان الابن في عياله فهو مشروط كما يعلم من عباراتهم بشروط منها اتحاد الصنعة وعدم مال سابق لهما وكون الابن في عيال أبيه فإذا عدم واحد منها لا يكون كسب الابن للأب وانظر إلى ما عللوا به المسألة من قولهم؛ لأن الابن إذا كان في عيال الأب يكون معينا له فيما يضع فمدار الحكم على ثبوت كونه معينا له فيه فاعلم ذلك اهـ.

وأجاب الخير الرملي عن سؤال آخر بقوله حيث كان من جملة عياله والمعينين له في أموره وأحواله فجميع ما حصله بكده وتعبه فهو ملك خاص لأبيه لا شيء له فيه حيث لم يكن له مال ولو اجتمع له بالكسب جملة أموال؛ لأنه في ذلك لأبيه معين حتى لو غرس شجرة في هذه الحالة فهي لأبيه نص عليه علماؤنا رحمهم الله تعالى فلا يجري فيه إرث عنه لكونه ليس من متروكاته اهـ.

وأجاب أيضا عن سؤال آخر بقوله إن ثبت كون ابنه وأخويه عائلة عليه وأمرهم في جميع ما يفعلونه إليه وهم معينون له فالمال كله له والقول قوله فيما لديه بيمينه وليتق الله فالجزاء أمامه وبين يديه وإن لم يكونوا بهذا الوصف بل كان كل مستقلا بنفسه واشتركوا في الأعمال فهو بين الأربعة سوية بلا إشكال وإن كان ابنه فقط هو المعين والإخوة الثلاثة بأنفسهم مستقلين فهو بينهم أثلاثا بيقين والحكم دائر مع علته بإجماع أهل الدين الحاملين لحكمته".

(کتاب الدعوی،ج:2،ص:18،ط:دار المعرفۃ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308100641

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں