آن لائن ڈالر خریدنے کا کیا حکم ہے؟
واضح رہے کہ ڈالر و کرنسی کی آن لائن خرید و فروخت کرنا جائز نہیں ہے، کیوں کہ ڈالر و کرنسی کی بیع شرعاً "بیعِ صرف" ہے، جس میں بدلین (جانبین کی کرنسی) پر مجلس میں قبضہ ضروری ہے اور دونوں جانب سے یا کسی ایک جانب سے ادھار ناجائز ہے، لہذا ایسے تمام سودے ناجائز ہیں، جن میں کرنسی کی خرید و فروخت ادھار ہوتی ہے باہمی تقابض نہ پائےجانے کی وجہ سے ایسے سودے فاسد ہوں گے اور نفع حلال نہ ہوگا۔
لہذا آن لائن ڈالر و کرنسی کے کاروبار میں عموماً کرنسی کی خرید و فروخت ادھار ہوتی ہے، اور بعض صورتوں میں نہ کرنسی ادا کی جاتی ہے، اور نہ ہی کرنسی وصول کی جاتی ہے، بلکہ محض سودے ہوتے ہیں اور کرنسی کے مارکیٹ انڈیکس کے فرق سے نفع بنالیا جاتا ہے، یا آن لائن انٹرنیٹ پر ہی سودے ہوتے رہتے ہیں اور اکاؤنٹ میں رقم باقی رہتی ہے اور دن کے آخر میں رقم میں نفع کا اضافہ یا نقصان کی کٹوتی کردی جاتی ہے، لہذا ان صورتوں پر مشتمل سودے حلال نہیں ہوں گے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما شرائطه) فمنها قبض البدلين قبل الافتراق كذا في البدائع سواء كانا يتعينان كالمصوغ أو لا يتعينان كالمضروب أو يتعين أحدهما ولا يتعين الآخر كذا في الهداية وفي فوائد القدوري المراد بالقبض ههنا القبض بالبراجم لا بالتخلية يريد باليد كذا في فتح القدير."
(كتاب الصرف، الباب الأول في تعريف الصرف وركنه وحكمه وشرائطه، ج: 3، ص: 217، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"وشرعا (بيع الثمن بالثمن)... (جنسا بجنس أو بغير جنس) كذهب بفضة (ويشترط) عدم التأجيل والخيار... (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحا على الصحيح (إن اتحد جنسا... (وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء.
(قوله: لحرمة النساء) بالفتح أي التأخير فإنه يحرم بإحدى علتي الربا: أي القدر أو الجنس."
(كتاب البيوع، باب الصرف، ج: 5، ص: 257۔259، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144601100653
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن