بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

22 شوال 1446ھ 21 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کاروبار کرنا


سوال

آن لائن کاروبار کرنے کا کیا حکم ہے؟

جواب

انٹرنیٹ کے ذریعہ یا موبائل ایپس کے ذریعے کاروبار / خرید و فروخت  میں اگر خریدوفروخت کی  تمام  شرائط پائی جائیں تو  وہ معاملہ  شرعا صحیح ہوگا ، مثلاً: مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیلات بتائی جائیں، جس سے ہر قسم کی جہالت مرتفع ہوجائے، اور کوئی بھی شرط فاسد نہ لگائی گئی ہو وغیرہ ۔

 چنانچہ آن لائن کاروبار  میں  اگر مبیع بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کرمشتری پر فروخت کی جارہی ہو اور مشتری سے قیمت وصول کرلی جائے تو یہ بیع درست ہے ، اگر مبیع (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی پر وہ سامان  فروخت  کرتاہے اور بعد میں وہ سامان  دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتاہے تو یہ صورت جائز نہیں ؛ اس لیے کہ بائع کی ملکیت میں مبیع موجود نہیں ہے اور وہ غیرکی ملکیت میں موجودسامان کو فروخت کررہاہے۔

اس کے جواز کی صورت یہ ہوسکتی ہے کہ بائع مشتری سے وعدہ بیع کرے یعنی  یہ کہہ دے کہ یہ سامان  میری ملکیت میں نہیں ،میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں،اگر آپ راضی ہیں تو میں  یہ سامان  خرید کر اپنے  قبضہ میں لے کر آپ پر بیچ دوں گا۔یوں بائع اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو  فروخت کرے تو یہ  درست ہے۔

اسی طرح آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی ایک فرد (مشتری) سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے فرد یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے  اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔

 البتہ ان صورتوں میں جب مبیع مشتری تک پہنچ جائے اور دیکھنے کے بعد اس کی مطلوبہ شرائط کے مطابق نہ ہوتواسےواپس کرنے کااختیار حاصل ہوگا۔نیز ان صورتوں  میں  مشتری  جب تک مبیع پر قبضہ نہ کرلے وہ آگے کسی اور پر وہ سامان فروخت نہیں کرسکتا۔

واضح رہے کہ سونا، چاندی اور کرنسی، سونا اور چاندی کی آن لائن خرید و فروخت شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ ان اشیاء کی بیع درست ہونے کے لیے ضروری ہے کہ ہاتھ در ہاتھ ہو اور مجلسِ عقد میں جانبین سے عوضین پر قبضہ پایا جائے۔

باقی آپ کس قسم کا آن لائن کاروبار کرنا چاہتے ہیں ، اس کی تفصیل لکھ کر بھیج دیجیے ان شاء اللہ اس کے شرعی حکم کے متعلق راہ نمائی کر دی جائے گی۔

صحیح مسلم میں ہے:

"عن ابن عباس، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من ابتاع طعاماً فلايبعه حتى يستوفيه»، قال ابن عباس: وأحسب كل شيء مثله."

(کتاب البیوع، باب بطلان بیع المبیع قبل القبض، ج:۳ ؍۱۱۵۹ ،ط:دار إحیاءالتراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(لا) يصح ... (بيع منقول) قبل قبضه ولو من بائعه ... والأصل أن كل عوض ملك بعقد ينفسخ بهلاكه قبل قبضه فالتصرف فيه غير جائز ... وفي المواهب: وفسد بيع المنقول قبل قبضه، انتهى. ونفي الصحة يحتملهما ... (قوله: ونفي الصحة) أي الواقع في المتن يحتملهما أي يحتمل البطلان والفساد والظاهر الثاني؛ لأن علة الفساد الغرر كما مر مع وجود ركني البيع، وكثيراً ما يطلق الباطل على الفاسد أفاده ط."

(کتاب البیوع، باب المرابحة و التولیة، فصل في التصرف في المبیع الخ،ج:۵ ؍۱۴۷، ۱۴۸،ط:سعید)

فتاویٰ  ہندیہ میں ہے:

"من حكم المبيع إذا كان منقولاً أن لايجوز بيعه قبل القبض."

(کتاب البیوع، الباب الثاني، الفصل الثالث، ج:۳ ؍ ۱۳ ،ط:رشیدیة )

 فتاوی شامی میں ہے:

"(ويشترط) عدم التأجيل والخيار و (التماثل) أي التساوي وزنا (والتقابض) بالبراجم لا بالتخلية (قبل الافتراق) وهو شرط بقائه صحيحًا على الصحيح (إن اتحد جنسًا وإن) وصلية (اختلفا جودةً وصياغةً) لما مر في الربا".

(5/257، 258، باب الصرف، کتاب البیوع، ط: سعید)          

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144307100929

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں