بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن فروخت میں مال واپس نہ لینے کا حکم


سوال

کیا ہم online market میں اپنے مال کو نو ریفنڈ  (no refund یعنی مال واپس نہیں کیا جائے گا)لکھ کر بیچ سکتے ہیں ؟ خریدنے سے پہلے ہم یہ website پر بتا دیں ؟

جواب

واضح رہے کہ بیع (خرید و فروخت ) میں اگر مشتری (خریدار) نےمبیعہ (بیچی گئی چیز) کو عقد کے وقت نہ دیکھا ہو اور بغیر دیکھے خرید لی ہو تو  ایسی بیع مکمل تو ہوجاتی ہے البتہ (مشتری پر )لازم نہیں ہوتی، چنانچہ عقد کے بعد جب بھی  وہ اس چیز کو دیکھے گا  اس کو شرعاً اختیار ہوگا  کہ مبیع کو واپس کرنا چاہے تو کر سکتا ہے۔اس کو شریعت کی اصطلاح میں خیار رؤیت کہا جاتا ہے۔

 آن لائن خریداری میں چونکہ مشتری (خریدار) نے مبیع کو حقیقت میں دیکھا نہیں ہوتا،(چاہے اس کی تصویر اس کو دکھا دی جائے کیونکہ تصویر میں دیکھنا حقیقت کے قائم مقام نہیں ہو سکتا)لہٰذا جب بھی وہ خریدی گئی چیز کو حقیقت میں دیکھے گا اس کو شریعت کی طرف سے واپسی کا اختیار ہوگا، چاہے  خریدار خود اپنا یہ اختیار صراحتاً فسخ کردے ، پھر بھی اس کا یہ اختیار ساقط نہیں ہوسکتا، اسی طرح محض ویب سائٹ پر اعلان کر دینے سے (کہ خریدا گیا مال واپس نہیں ہوگا)بھی خریدار کا یہ اختیار ساقط نہیں ہوسکتا، بلکہ پہلی مرتبہ دیکھنےمیں اس کو واپس کرنے کا اختیار ملے گا۔

نیز یہ بھی واضح رہے کہ شریعت میں بیچے گئے مال کو واپس لینے سے متعلق فضیلت وارد ہوئی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں ہے:

"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ أَقَالَ مُسْلِمًا، أَقَالَهُ اللَّهُ عَثْرَتَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ"

(سنن ابن ماجہ، باب الاقالۃ،  ۷۴۱ /۲ ،ط:داراحياء الكتب العربيۃ)

"ترجمہ :حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جو کسی مسلمان سے اقالہ کرلے (یعنی بیچی ہوئی چیز واپس لے لے) اللہ تعالیٰ روز قیامت اس کی لغزشوں سے درگزر فرمائیں گے۔"

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"شراء ما لم يره جائز كذا في الحاوي وصورة المسألة أن يقول الرجل لغيره: بعت منك هذا الثوب الذي في كمي هذا وصفته كذا والدرة التي في كفي هذه وصفتها كذا أو لم يذكر الصفة، أو يقول: بعت منك هذه الجارية المنتقبة. وأما إذا قال: بعت منك ما في كمي هذا أو ما في كفي هذه من شيء هل يجوز هذا البيع؟ لم يذكره في المبسوط قال عامة مشايخنا: إطلاق الجواب يدل على جوازه عندنا كذا في المحيط من اشترى شيئا لم يره فله الخيار إذا رآه إن شاء أخذه بجميع ثمنه وإن شاء رده سواء رآه على الصفة التي وصفت له أو على خلافها كذا في فتح القدير هو خيار يثبت حكما لا بالشرط كذا في الجوهرة النيرة

ولا يمنع ثبوت الملك في البدلين ولكن يمنع اللزوم كذا في محيط السرخسي ولا يسقط بصريح الإسقاط قبل الرؤية ولا بعدها هكذا في البدائع وله أن يفسخ وإن لم ير عند عامة المشايخ رحمهم الله تعالى وهو الصحيح كذا في الفتاوى الصغرى وإن أجازه قبل الرؤية لم يجز وخياره باق على حاله فإذا رآه إن شاء أخذ وإن شاء رده هكذا في المضمرات."

(الفتاوى الهندية ،كتاب البيوع،الباب السابع في خيار الرؤية وفيه ثلاثة فصول، الفصل الأول في كيفية ثبوت الخيار وأحكامه، ج:3، ص57،ط: دار الفكر بيروت)

فتاویٰ  شامی میں ہے:

"ولو فسخه قبلها) قبل الرؤية (صح) فسخه (في الأصح) بحر؛ لعدم لزوم البيع بسبب جهالة المبيع فلم يقع مبرما

(قوله: لعدم لزوم البيع) بيان للفرق بين الفسخ والإجازة فإنها غير لازمة قبل الرؤية وهو لازم مع استوائهما في التعليق بالشرط في الحديث المار وذلك أن الفسخ له سبب آخر وعدم لزوم هذا العقد، وما لا يلزم فللمشتري فسخه ولم يثبت للإجازة سبب آخر فبقيت على العدم. وحاصله أنه غير لازم قبل الرؤية لجهالة المبيع، وإذا رآه حدث له سبب آخر لعدم لزومه وهو الرؤية ولا مانع من اجتماع الأسباب على مسبب واحد أفاده في البحر."

(حاشية ابن عابدين (رد المحتار علي الدر المختار)،كتاب البيوع، باب خيار الرؤية، 4/595 ، ط: سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144510101824

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں