آج کل یہ کاروبار عروج پر ہے کہ مختلف لوگوں نے آن لائن قرآن اکیڈمی کے نام سے اپنی اکیڈمیاں بنائی ہوئی ہیں، جس میں وہ مختلف ممالک سے طلباء کو تلاش کرتے ہیں اور ان کو بیچتے ہیں، بیچنے کا طریقہ کار یہ ہے کہ طلباء (اسٹوڈنٹس) کے ساتھ جتنی فیس طے ہوتی ہے، اس حساب سے چار ماہ کی فیس خریدنے والے سے ایڈوانس لے لیتے ہیں اور اسٹوڈنٹس خریدار کے حوالے کرتے ہیں، جس میں دو ماہ کی گارنٹی ہوتی کہ اگر طالب علم دو ماہ کے اندر اندر چلا گیا تو وہ دوسرا اسٹوڈنٹ دیتے ہیں یا پھر پیسے واپس کر دیتے ہیں، اگر اسٹوڈنٹ دوماہ گزرنے کے بعد چلا گیا تو کچھ بھی واپس نہیں کرتے، البتہ فیس وہ چار ماہ کی لے چکے ہوتے ہیں ۔ آیا اس طرح اسٹوڈنٹس خریدنا بیچنا جائز ہے یا نہیں ؟
واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تعلیم کے لیے بہتر صورت تو یہی ہے کہ بالمشافہ(آمنے سامنے) استاد شاگرد بیٹھ کر پڑھیں اور پڑھائیں اور یہی صورت بہتر اور موزوں ہے اور اولین ترجیح بھی اسی کو ہونی چاہیے، البتہ اگر کبھی ضرورت ہو، جیسے کوئی اچھا ماہر استاد بالمشافہ پڑھانے والا میسر نہ ہو اور آن لائن پڑھنے پڑھانے کی ضرورت پیش آرہی ہو، تو شرعی حدود میں رہتے ہوئے آن لائن قرآن پڑھنے پڑھانے کی بھی اجازت ہے۔
باقی قرآن کریم پڑھانے کا مقصد محض اللہ کی رضا ہونی چاہیے، پیسہ کمانا مقصد نہیں ہونا چاہیے، اگر چہ ضرورت کی بنا پر تعلیمِ قرآن پر اجرت لینا جائز ہے، لیکن مقصد اس میں اللہ کی رضا ہی ہونی چاہیے۔
صورتِ مسئولہ میں جو طلبہ کو بیچنا اور خریدنا ذکر کیا گیا ہے اگر اس سے مراد یہ ہے کہ وہ آن لائن قرآن اکیڈمی طلبہ کو ہائیر کر کے مختلف معلمین کو دیتی ہے، اس پر معلمین سے 4 ماہ کی فیس بطورِ کمیشن کے لیتی ہے اور اس میں یہ شرط بھی لگاتی ہے کہ اگر طالب علم نے پورے دو ماہ تک تعلیم جاری رکھی، تو کمپنی مذکورہ اجرت لے گی اور اگر طالبِ علم دو ماہ سے پہلے تعلیم چھوڑدے، تو یا تو کمپنی اجرت واپس کردےگی، یا پھر اس کی جگہ کوئی دوسرا طالب علم لاکر دے گی، یہ معاہدہ شرعاً درست نہیں ہے، اس میں کئی شرعی خرابیاں ہیں۔
لہٰذا صورتِ مسئولہ میں آن لائن قرآن اکیڈمی کا جو طریقہ کار ذکر کیا گیا ہے، شرعی نکتہ نطر سے یہ درست نہیں ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔
نوٹ: یہ جواب اس صورت میں ہے کہ اسٹوڈنٹ بیچنے اور خریدنے سے مراد وہی ہو، جو اوپر ذکر کیا گیا، اگر اس سے مراد کچھ اور ہے، تو اس کو واضح کر کے دوبارہ سوال ارسال کردیا جائے۔
معالم التنزیل میں ہے:
"(والميسر) ، يعني: القمار والمراد من الآية أنواع القمار كلها، قال طاوس وعطاء ومجاهد: كل شيء فيه قمار فهو من الميسر."
(سورة البقرة، ج:1، ص:83، ط:دار السلام)
رد المحتار میں ہے:
"مطلب في أجرة الدلال [تتمة]
قال في التتارخانية: وفي الدلال والسمسار يجب أجر المثل، وما تواضعوا عليه أن في كل عشرة دنانير كذا فذاك حرام عليهم. وفي الحاوي: سئل محمد بن سلمة عن أجرة السمسار، فقال: أرجو أنه لا بأس به وإن كان في الأصل فاسدا لكثرة التعامل وكثير من هذا غير جائز، فجوزوه لحاجة الناس إليه كدخول الحمام وعنه قال: رأيت ابن شجاع يقاطع نساجا ينسج له ثيابا في كل سنة."
(كتاب الإجارة، ج:6، ص:63، ط:سعيد)
الدر المختارمیں ہے:
"(تفسد الإجارة بالشروط المخالفة لمقتضى العقد فكل ما أفسد البيع) مما مر (يفسدها) كجهالة مأجور أو أجرة."
(كتاب الإجارة، ج:6، ص:46، ط:سعيد)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144601101203
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن