بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن ٹریڈنگ کا حکم


سوال

سائل کو معلوم ہوا کہ مروجہ آن لائن ٹریڈنگ بیع قبل القبض اور دیگر مفاسد کی بنا پر ناجائز ہے  اور  اِس سے حاصل ہونے والا نفع اگر اصل مالکان تک پہنچانا ممکن نہ ہو تو پھر بغیر نیتِ ثواب مستحقین کو دیا جائے گا۔ (اگر اِن باتوں میں سے کچھ بھی درست نہیں تو ضرور مطلع کیجیے گا!)

سوال یہ ہے کہ اگر ایک شخص نے مذکورہ بالا آن لائن ٹریڈنگ میں حصہ لیا اور بجائے نفع کے اصل مال بھی گنوا دیا تو کیا اُس کے لیے اُس وقت تک یہی ناجائز ٹریڈنگ کرنا جائز ہو گا جب تک کہ وہ اپنا اصل مال واپس حاصل نہیں کر لیتا؟ یا پھر اب اُسے توبہ کرتے ہوئے گنوائے ہوئے مال کو خیرباد کہنا ہوگا  اور  اصل مال کی واپسی کی صورت اگر ٹریڈنگ کمپنی سے کسی بھی طرح نہیں بنتی تو ایسی ٹریڈنگ سے بہر صورت کنارہ کشی ہی اُس کے لیے صحیح راستہ ہو گی؟

جواب

اول تو یہ سمجھیں کہ آن لائن ٹریڈنگ کی تمام صورتیں نا جائز نہیں ہیں، بلکہ اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں، جن میں سے بعض جائز اور بعض ناجائز ہیں:

 اگر آن لائن کاروبار میں"مبیع" (جوچیزفروخت کی جارہی ہو)بیچنے والے کی ملکیت میں نہیں ہے اور وہ محض اشتہار ،تصویردکھلاکر کسی کو وہ سامان فروخت کرتا ہو  (یعنی سودا کرتے وقت یوں کہے کہ "فلاں چیز میں نے آپ کو اتنے میں بیچی"، وغیرہ) اور بعد میں وہ سامان کسی اور دکان،اسٹوروغیرہ سے خرید کردیتا ہو تو یہ صورت بائع کی ملکیت میں "مبیع" موجود نہ ہونے کی وجہ سے جائز نہیں ہے؛ اس لیے کہ جو چیز فروخت کرنا مقصود ہو وہ بائع کی ملکیت میں ہونا شرعاً ضروری ہوتا ہے۔

درج ذیل صورتوں میں آن لائن کاربار جائز ہو گا:

1۔ بائع مشتری سے یہ کہہ دے کہ یہ سامان میری ملکیت میں نہیں ، اگر آپ کو چاہیے تو میں اسے خرید کرآپ کو اتنی قیمت میں فروخت کرسکتاہوں، یوں بائع اس سامان کوخرید کر اپنے قبضہ میں لے کر باقاعدہ سودا کرکے مشتری کو فروخت کرے تو یہ درست ہے۔

2۔ آن لائن کام کرنے والا فرد یا کمپنی ایک فرد  (مشتری) سے آرڈر لے اورمطلوبہ چیز کسی دوسرے فرد  یا کمپنی سے لے کر خریدار تک پہنچائے اور اس عمل کی اجرت مقرر کرکے لے تو یہ بھی جائز ہے۔ یعنی بجائے اشیاء کی خرید وفروخت کے بروکری کی اجرت مقرر کرکے یہ معاملہ کرے۔

3۔ اگر مبیع  بائع کی ملکیت میں موجود ہو اور تصویر دکھلا کر سودا کیا جا رہا ہو تو ایسی صورت میں بھی آن لائن خریداری شرعاً درست ہوگی۔

اگر سائل نے  اب تک کیے جانے والے کام میں  ناجائز صورت ہی اختیار کی تھی  تو اب جائز صورتوں میں سے کسی صورت کو اختیار کر کے آن لائن کام کر سکتا ہے، ناجائز صورت کو اختیار کرنا بہرصورت ناجائز ہی ہو گا، چوں کہ سوال میں مذکورہ شخص نے نفع حاصل کیا ہی نہیں ہے تو  ناجائز طریقے سے   حاصل شدہ آمدن کو صدقہ کرنے کا سوال ہی نہیں ہوتا، ہاں اگر ناجائز طریقے سے کاروبار کیا تو اس پر توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201327

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں