بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

اولاد کا والد کی زندگی میں انتقال ہو جانے کی صورت میں میراث کا حکم


سوال

ہم پانچ بھائی اور پانچ بہنیں ہیں، ایک بہن کا انتقال والد صا حب کی حیا ت میں ہوا،والد صاحب  نے تمام جائیداد   (60 مرلےزمین )  میں سے  12، 12  مرلے     زمین تعمیر شدہ مکان کی صورت میں ہر ایک بیٹے کے نام پرکر دی ،اور رہر ایک بیٹے کو اس کا حصہ متعین کر کے مالکانہ قبضہ او تصرف کے ساتھ دے دیا، جبکہ سب بھائی  والد صاحب کے ساتھ  اُسی 12مرلے والے   ایک بیٹے کے گھر میں مشترکہ طور پر رہ رہے تھے، جبکہ باقی بھائیوں نے اپنی اپنی ہبہ شدہ جگہ (مکان) پر مالکانہ قبضہ کر کےکرایہ پر دے  دئے تھے ، اور والد صاحب کا انتقال اسی  مشترکہ گھر میں ہوا،اب  سوال یہ ہے کہ وہ بہن  جس کا انتقال ہوا ہے اس کے بچے اپنی والدہ کا حصہ طلب کر رہے ہے ، آیا ان کا کوئی حصہ ہوگا یا نہیں ؟ جبکہ ہم اپنی بہنوں اور ان کے بچوں کا خیال بھی رکھتے ہیں ۔

جواب

واضح رہے کہ والد( صاحب  جائیداد  )اگر اپنی زندگی میں اپنی اولاد کے درمیان جائیداد  تقسیم کرے تو والد پر لازم ہے کہ اپنی تمام اولاد بیٹے اور بیٹیوں سب کے درمیان برابری کی بنیاد پر تقسیم کرے،کسی کو محروم کرنا یا بلاوجہ کمی بیشی کرنا ناجائز اور گناہ    ہے،اور ایسی تقسیم شرعاً غیر منصفانہ کہلاتی ہے،والد گناہ گار قرار پائے گا۔

مذکورہ تفصیل کی رو سے صورت مسئولہ میں سائل کےوالد مرحوم نے اپنی زندگی میں   اپنی مملوکہ زمین میں 12، 12 مرلے جو تعمیرشدہ مکان کی صورت میں تھا بیٹوں  میں سے ہر ایک بیٹے کو مالکانہ  قبضہ  تصرف کے ساتھ دے دیا تھا، جس کے بعد یہ بیٹے مذکورہ ہبہ شدہ مکان کے مالک بن گئے تھے،لہذا والد کا اپنی بیٹیوں کو جائیداد  سے محروم رکھنا شرعاً جائز نہیں تھا،اپنی بیٹیوں کو جائیدا د سے محروم کر کے والد گناہ گا ر ہوا،والد کے حق میں استغفار ضروری ہے، اب اس کے ازالہ  اور تلافی کی صورت یہ ہے کہ یہ بیٹے اپنی بہنوں کو اتنا حصہ دے دیں کہ جس سے ان کا حصہ ان کے بھائیوں کے برابر ہو جائے،یا کچھ مال وغیرہ دے کر اپنی ان بہنوں کو راضی کرلیں تاکہ والد آخرت کی مسئولیت سے بچ جائیں۔ باقی والد کی زندگی  میں جس بیٹی کا انتقال ہوا ہے اس کا یا اس کی اولاد کا  سائل کے والد کے ترکہ میں شرعی کوئی حق وحصہ نہیں ہے، تاہم مرحوم والد کے شرعی ورثاء  اپنے اپنے شرعی حصوں میں سے ان کو کچھ دے دیں تو  یہ ان کی طرف سے احسان اور تبرع ہوگا، آخرت میں ثواب ملے گا۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاما فقال: "أكل ولدك نحلت مثله؟" قال: لا قال: "فأرجعه" . وفي رواية: أنه قال: "أيسرك أن يكونوا إليك في البر سواء؟" قال: بلى قال: "فلا إذن" . وفي رواية: أنه قال: أعطاني أبي عطية فقالت عمرة بنت رواحة: لا أرضى حتى تشهد رسول الله صلى الله عليه وسلم فأتى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني أعطيت ابني من عمرة بنت رواحة عطية فأمرتني أن أشهدك يا رسول الله قال: "أعطيت سائر ولدك مثل هذا؟" قال: لا قال: "فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم". قال: فرجع فرد عطيته. وفي رواية: أنه قال: "لا أشهد على جور."

(کتاب البیوع، باب العطایا، ج : 3، ص : 158، رقم الحدیث : 3019، ط : بشری)

مظاہر ِحق جدید میں ہے :

"ترجمہ:حضرت نعمان ابن بشیرؓ کے بارے منقول ہے کہ (ایک دن ) ان کے والد (حضرت بشیر ؓ) انہیں رسولِ کریمﷺ کی خدمت میں لائے اور عرض کیا کہ میں نے اپنے اس بیٹے کو ایک غلام عطا کیا ہے، آپ ﷺ نے فرمایا : کیا آپ نے اپنے سب بیٹوں کو اسی طرح ایک ایک غلام دیا ہے؟، انہوں نے کہا : ”نہیں “، آپ ﷺ نے فرمایا: تو پھر (نعمان سے بھی ) اس غلام کو واپس لے لو، ایک اور روایت میں آتا ہے کہ …… آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالی سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کرو۔"

(کتاب البیوع، باب العطایا، ج : 3، ص : 193، ط : دارالاشاعت)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"ومنها أن يكون الموهوب مقبوضا حتى لا يثبت الملك للموهوب له قبل القبض وأن يكون الموهوب مقسوما إذا كان مما يحتمل القسمة وأن يكون الموهوب متميزا عن غير الموهوب ولا يكون متصلا ولا مشغولا بغير الموهوب،حتى لو وهب أرضا فيها زرع للواهب دون الزرع، أو عكسه أو نخلا فيها ثمرة للواهب معلقة به دون الثمرة، أو عكسه لا تجوز."

(کتاب الھبة،‌‌ الباب الأول تفسير الهبة وركنها وشرائطها وأنواعها وحكمها، ج : 4، ص : 375، ط : رشیدیه)

تکملۃ رد المحتار میں ہے :

"وشروطه ثلاثة: موت مورث حقيقة، أو حكما كمفقود، أو تقديرا كجنين فيه غرة ووجود وارثه عند موته حيا حقيقة، أو تقديرا كالحمل والعلم بجهل إرثه."

(کتاب الفرائض، ج : 7، ص : 349، ط : سعید)

مشکاۃ المصابیح میں ہے :

"وعن أبي هريرة رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: "تهادوا فإن الهدية تذهب وحر الصدر ولا تحقرن جارة لجارتها ولا شق فرسن شاة". رواه الترمذي."

(کتاب البیوع ، باب العطايا، الفصل الثانی، ج :1، ص : 454، رقم الحدیث : 3027، ط : بشری)

مظاہر حق جدید میں ہے :

"ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسول اللہ صلی الم نے فرمایا آپس میں ہدیہ بھیجا کرو کیونکہ ہدیہ سینے کی کدورت یعنی بغض و عداوت کو دور کرتا ہے اور کوئی پڑوسن دوسری پڑوسن کی طرف بکری کے پائے کا ٹکڑا بھیجنے کو حقیر نہ سمجھے۔"

(کتاب البیوع ، باب العطايا، الفصل الثانی، ج : 3، ص : 221، ط : مکتبۃ العلم)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144610100218

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں