کیا عدت میں عورت گھر سے باہر مجبوری میں جا سکتی ہے؟ مثلاً ملازمت کے لیےیا پنشن وغیرہ کے حصول کے لیے یا کوئی اور بینک یا دفتر وغیرہ کا کام درپیش ہو یا خریداری کرنی ہوجب کہ کوئی اور کرنے والا نہ ہو یا جانا ضروری ہو، تو وہ جاسکتی ہے یا نہیں؟
صورت مسئولہ میں عدت میں بیٹھی مذکورہ عورت کا گزربسر اگر اُس کی ملازمت پر موقوف نہ ہو(یعنی کمانے والا کوئی اور موجود ہو) ، یا گزر بسر تو ملازمت پر موقوف ہو لیکن عدت کے نان و نفقہ کے انتظامات موجود ہوں،(خواہ وہ عورت خود اتنی مالدار ہو یا کوئی اور شخص خرچہ ادا کرے) اور متعلقہ ادارے سے ملازمت کی رخصت مل سکتی ہو،اسی طرح بینک اور دفتر وغیرہ کے کام کاج کی انجام دہی اور سودا سلف کی خریداری کرنے کے لیے متبادل کا انتظام ہوسکتا ہو توان تمام صورتوں میں شرعاً ایسی عورت کا دورانِ عدت مذکورہ وجوہات کی وجہ سے گھر سے باہر جانا درست نہیں ہے، کیوں کہ عدت کے دوران عورت کو جانی یا مالی نقصان (مثلًا بیماری ، فقر وفاقہ ، انہدامِ بیت یا ضیاعِ مال و دولت)کے اندیشے کے بغیر گھر سے باہر جانے کی اجازت نہیں ہے۔
بصورتِ دیگر یعنی اگر گھر میں کمانے والا کوئی نہ ہو ،عورت خود بھی کسمپرسی کی شکار ہواور متعلقین و رشتہ دار میں سے کوئی خرچ وغیرہ کا انتظام بھی نہ کرےتو اس صورت ملازمت کی خاطر دورانِ عدت گھر سے بقدرِ ضرورت باہر جانے کی گنجائش ہے،لیکن رات بہرحال گھر میں آکر گزارے۔اِسی طرح دیگر ضروری امور اور کام کاج کے لیے متبادل کا انتظام نہ ہوسکے تو بقدرِ ضرورت گھر سے نکلنے کی گنجائش ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وتعتدان) أي معتدة طلاق وموت (في بيت وجبت فيه) ولا يخرجان منه (إلا أن تخرج أو يتهدم المنزل، أو تخاف) انهدامه، أو (تلف مالها، أو لا تجد كراء البيت) ونحو ذلك من الضرورات فتخرج لأقرب موضع إليه."
(كتاب الطلاق، ج:3، ص:536، ط: سعيد)
البحر الرائق شرح كنز الدقائق میں ہے:
"(قوله ومعتدة الموت تخرج يوما وبعض الليل) لتكتسب لأجل قيام المعيشة؛ لأنه لا نفقة لها حتى لو كان عندها كفايتها صارت كالمطلقة فلايحل لها أن تخرج لزيارة ولا لغيرها ليلًا ولا نهارًا.
والحاصل أن مدار الحل كون خروجها بسبب قيام شغل المعيشة فيتقدر بقدره فمتى انقضت حاجتها لا يحل لها بعد ذلك صرف الزمان خارج بيتها كذا في فتح القدير وأقول: لو صح هذا عمم أصحابنا الحكم فقالوا: لاتخرج المعتدة عن طلاق أو موت إلا لضرورة؛ لأن المطلقة تخرج للضرورة بحسبها ليلا كان أو نهارا والمعتدة عن موت كذلك فأين الفرق؟ فالظاهر من كلامهم جواز خروج المعتدة عن وفاة نهارا، ولو كانت قادرة على النفقة ولهذا استدل أصحابنا بحديث «فريعة بنت أبي سعيد الخدري - رحمه الله تعالى - أن زوجها لما قتل أتت النبي صلى الله عليه وسلم فاستأذنته في الانتقال إلى بني خدرة فقال لها: امكثي في بيتك حتى يبلغ الكتاب أجله» فدل على حكمين إباحة الخروج بالنهار وحرمة الانتقال حيث لم ينكر خروجها ومنعها من الانتقال وروى علقمة أن نسوة من همدان نعي إليهن أزواجهن فسألن ابن مسعود - رضي الله عنه - فقلن إنا نستوحش فأمرهن أن يجتمعن بالنهار، فإذا كان بالليل فلترجع كل امرأة إلى بيتها كذا في البدائع، وفي المحيط عزاء الثاني إلى النبي صلى الله عليه وسلم وفي الجوهرة يعني ببعض الليل مقدار ما تستكمل به حوائجها، وفي الظهيرية: والمتوفى عنها زوجها لا بأس بأن تتغيب عن بيتها أقل من نصف الليل، قال شمس الأئمة الحلواني: وهذه الرواية صحيحة اهـ. و لكن في الخانية والمتوفى عنها زوجها تخرج بالنهار لحاجتها إلى نفقتها ولا تبيت إلا في بيت زوجها اهـ.فظاهره أنها لو لم تكن محتاجة إلى النفقة لايباح لها الخروج نهارًا كما فهمه المحقق."
(كتاب الطلاق، باب العدة، فصل فى الأحداد، ج:4، ص:166، ط:دارالكتاب الإسلامى)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603103183
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن