بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

1 ذو القعدة 1446ھ 29 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عورت کا مراقبہ کرنے کا حکم


سوال

کیا عورت کسی شیخ سے بیعت ہوئےبغیرمراقبہ کر سکتی ہے؟  کیا یہ درست رہے گا؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں کسی شیخ سے بیعت ہوئے بغیر مراقبہ کرنا جائز ہے، خواہ مرد کرے یا خاتون کرے؛ کیوں کہ مراقبہ درحقیقت اپنی زندگی کے اعمال و افعال  اور روز مرہ کے معمولات بالخصوص نفس کے محاسبہ کی نیت سے  اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف اپنے دل و دھیان کو یکسو  و متوجہ کرنے کا نام ہے، اِس کے لیے شیخ کی بیعت شرعاً ضروری نہیں ہے۔ تاہم صوفیائے کرام نے مراقبے کی مختلف اقسام بیان کی ہیں، ان میں سے بعض مراقبہ کی عام قسم ہے یعنی وہ مراقبہ جو بطورِ احتساب نفس کیا جائے، اس کے لیے کسی شیخ وغیرہ کی ضرورت نہیں ہے۔ جبکہ بعض خاص مراقبے ہیں، پھر اِن میں سے بعض مراقبے امراض قلبیہ کے لیے بطورِ علاج کیے جاتے ہیں،یہ خاص  مراقبے کسی متبع سنت شیخ کے بتائے طریقے کے مطابق کرنا بہتر ہے، کیونکہ کوئی مریض اپنے مرض کا  خود معالج بن کر علاج تجویز کرے تو بسااوقات نقصان بھی ہوجاتا ہے۔(مزید تفصیل کے لیے "شریعت و طریقت " یا "شریعت و تصوف" ملاحظہ ہو۔)مزید حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی ہدایات جو ان کی تصانیف میں ہیں اس پر عمل کریں فائدہ ملے گا۔

بہشتی زیور میں ہے:

"دل سے ہر وقت دھیان رکھے کہ اللہ تعالی کو میرے سب حالوں کی خبر ہے، ظاہر کی بھی اور دل کی بھی، اگر برا کام ہوگا یا برا خیال لایاجائے گا، شاید اللہ تعالی دنیا میں یا آخرت میں سزا دیں۔ دوسرے عبادت کے وقت یہ دھیان جمائے کہ وہ میری عبادت کو دیکھ رہے ہیں، اچھی طرح بجالانا چاہیے۔ 

طریقہ اس کا یہی ہے کہ کثرت سے ہر وقت یہ سوچا کرے، تھوڑے دنوں میں اس کا دھیان بندھ جائے گا، پھر ان شاء اللہ تعالی اس سے کوئی بات اللہ تعالی کی مرضی کے خلاف نہ ہوگی۔"

( باب: 42،  مراقبہ یعنی دل سے خدا کا دھیان رکھنا اور اس کا طریقہ،ج:7، ص:18، ط: دار الاشاعت)

شریعت و طریقت (مؤلفہ حکیم الامۃ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحبؒ) میں ہے:

"حق تعالیٰ کی ذات و صفات یا کسی مضمون کا دل سے اکثر احوال میں یا ایک محدود وقت تک اس غرض سے کہ اس کے غلبہ سے اس کے مقتضاء پر عمل ہونے لگے، تدبر تام سے متوجہ ہونا اور اس کا تصور مواظبت کیساتھ رکھنا مراقبہ کہلاتا ہے، جو اعمالِ مقصوہ قلب میں سے ہے، ان مراقبات سے تصور ناقص راسخ ہوجاتا ہے، اور اسی رسوخ میں مشائخ عوام سے ممتاز ہیں۔"

(تیسری فصل مراقبہ،ص:278، ط:مکتبۃ الحق-ممبئی)

شریعت و تصوف(مؤلفہ  مسیح الامت حضرت شاہ محمد مسیح اللہ صاحبؒ) میں ہے:

"مراقبہ:کسی ایسے مضمون کو سوچنا، جو مطلوبِ حقیقی اللہ تعالیٰ کی طرف انجذاب کا سبب ہو، اس تک پہنچانے والا ہو۔ اس کی یاد و دھیان کا سبب ہو۔ سیدھے سادھے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ جو چیز مطلوبِ حقیقی، اللہ جل شانہٗ تک پہنچانے والی ہو اس کے خیال رکھنے کو مراقبہ کہتے ہیں۔ لہذا مراقبہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے مدنظر رکھنے کو کہتے ہیں۔

اور مراقبہ خاص یہ ہے کہ خدا کی ذات میں اس قدر فکر کرے کہ اپنے سے بے فکر اور بے خبر ہوجاوے، کبھی یاد دل سے نہ اترے، خواہ جمالاً یا جلالاً یا انسیۃً یا خشیۃً یا خوفاً یا رحمۃً و محبۃً یا شوقاً الی لقائہٖ۔"

(صفحہ271-272،ط: ادارۃ تالیفات اشرفیہ)

الاتقان فی علوم القرآن للسیوطی میں ہے :

"‌الإجازة ‌من ‌الشيخ غير شرط في جواز التصدي للإقراء والإفادة فمن علم من نفسه الأهلية جاز له ذلك وإن لم يجزه أحد وعلى ذلك السلف الأولون والصدر الصالح وكذلك في كل علم وفي الإقراء والإفتاء خلافا لما يتوهمه الأغبياء من اعتقاد كونها شرطا. وإنما اصطلح الناس على الإجازة لأن أهلية الشخص لا يعلمها غالبا من يريد الأخذ عنه من المبتدئين ونحوهم لقصور مقامهم عن ذلك والبحث عن الأهلية قبل الأخذ شرط فجعلت الإجازة كالشهادة من الشيخ للمجاز بالأهلية."

(‌‌النوع الرابع والثلاثون: في كيفية تحمله، ج:1، ص:355، ط:الهيئة المصرية العامة للكتاب)

فقط والله تعالى اعلم


فتوی نمبر : 144609101561

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں