بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا عورت گھرمیں دوپٹہ اتار سکتی ہے؟


سوال

کیا عورت اپنے گھر میں سر سے دوپٹہ اتار سکتی ہے، جب کہ گھر میں صرف شوہر اور بچے ہی ہوں؟ ایک حدیث بیان کی جاتی ہے کہ ننگے سر والی عورت پر فرشتے لعنت کرتے ہیں۔ اس کی صحت اور دائرہ کار واضح کر دیں، کہ یہ حکم ہر جگہ کے لیے ہے یا صرف باہر نکلتے وقت؟

جواب

واضح رہےکہ عورت كےستر اور  پردے سےمتعلق آیات و روایت اور وعیدوں کاتعلق   اجنبی، نامحرم مردوں اور غیرمسلم عورتوں سےہیں ، چاہےیہ لوگ گھرمیں ہوں،یاگھرکےباہر۔ عورت کے وہ رشتہ دارجن سے نکاح کرنا ہمیشہ کےلیےحرام  ہے، ان کے سامنے جس طرح چہرہ  کھلا رکھنا جائز ہے، اسی طرح کام کاج کے وقت ان کے سامنے سرکھلا رکھنا بھی جائزہے؛ لہٰذا گھرمیں اگر اجنبی مردوں کے آنے کا احتمال نہ ہو تو  عورت اپنادوپٹہ گھرمیں اتارسکتی ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ گھر میں بھی سرپردوپٹہ موجود رہے؛  تا کہ کسی قسم کے فتنے کا اندیشہ نہ رہے۔

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

"فأما نظره إلى ذوات محارمه فنقول: يباح له أن ينظر إلى موضع الزينة الظاهرة والباطنة لقوله تعالى {ولا يبدين زينتهن إلا لبعولتهن} [النور: 31] الآية ولم يرد به عين الزينة فإنها تباع في الأسواق ويراها الأجانب ولكن المراد منه موضع الزينة وهي الرأس والشعر والعنق والصدر والعضد والساعد والكف والساق والرجل والوجه فالرأس موضع التاج والإكليل والشعر موضع القصاص والعنق موضع القلادة والصدر كذلك فالقلادة والوشاح قد ينتهي إلى الصدر والأذن موضع القرط والعضد موضع الدملوج والساعد موضع السوار والكف موضع الخاتم والخضاب والساق موضع الخلخال والقدم موضع الخضاب وجاء في الحديث أن الحسن والحسين رضي الله عنهما دخلا على أم كلثوم وهي تمتشط فلم تستتر ولأن المحارم يدخل بعضهم على بعض من غير استئذان ولا حشمة والمرأة في بيتها تكون في ثياب مهنتها عادة ولا تكون مستترة فلو أمرها بالتستر من ذوي محارمها أدى إلى الحرج."

(كتاب الاستحسان،نظرالرجل الی المرأة،  ج: 10، ص: 149، ط:مطبعة السعادة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"في غريب الرواية يرخص للمرأة كشف الرأس في منزلها وحدها فأولى أن يجوز لها لبس خمار رقيق يصف ما تحته عند محارمها كذا في القنية."

(کتاب الکراهية، الباب التاسع في اللبس... ج: 5، ص: 333، ط: رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومن محرمه) هي من لا يحل له نكاحها أبدا بنسب أو سبب ولو بزنا (إلى الرأس والوجه والصدر والساق والعضد إن أمن شهوته) وشهوتها أيضا ذكره في الهداية فمن قصره على الأول فقد قصر ابن كمال (وإلا لا، لا إلى الظهر والبطن)."

(کتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر واللمس، ج: 6، ص: 367، ط: سعيد)

حاشیہ معارف القرآن میں ہے:

" بدن کے دوسرے حصے ، مثلاً سر کلائیاں پنڈلی وغیرہ محرم کے سامنے کھولی جا سکتی ہے، البتہ زمانہ چونکہ فتنے کا ہے ؛ اس لئے بلا ضرورت کھولنے کی عادت ڈالنا  مناسب نہیں ۔ شاید اسی وجہ سے حضرت مصنف رحمہ اللہ علیہ نے نماز کے ستر ہی کو محرم کا ستر قرار دیا ہے."

(403/6،ط:  معارف القرآن)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511100212

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں