میری نظر سے ایک تحریر گزری، جس میں رحم عطیہ کرنے کے متعلق معلوم ہوا. اس کامیاب ٹراسپلانٹ کی خبر سننے کے بعد ذہن میں فوراً اس کے شرعی حکم کے متعلق جاننے کے بارے میں سوال پیدا ہوا، براہِ مہربانی اس کاشرعی حکم بتا دیں۔
انسان کے اعضاء اس کے پاس اللہ تعالیٰ کی امانت ہیں، جنہیں خود جائز حدود میں استعمال کرنے اور ان سے نفع اٹھانے کا انسان کو حق حاصل ہے، لیکن انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں ہوتا، نہ ہی انسانی اعضاء مال ہیں ؛ اس لیے نہ ہی انسان اپنے اعضاء میں سے کسی عضوکوہبہ (گفٹ)کرسکتاہے اورنہ عطیہ کرنے کی وصیت کرسکتاہے۔ انسانی اعضاءکا زندگی میں یامرنےکے بعدکسی شخص کوعطیہ کرنا یا اپنا جسم یا کوئی عضو وقف کرنا ناجائز و حرام ہے۔
لہذا صورت مسئولہ میں کسی عورت کازندگی میں یا مرنے کے بعد اپنا رحم عطیہ کرناحرام و ناجائزہے۔
اس مسئلہ کے متعلق مزید تفصیل کے لیے حضرت مولانامفتی محمدشفیع رحمہ اللہ کی کتاب "انسانی اعضاء کی پیوندکاری" کامطالعہ فرمائیں۔ نیز درج ذیل لنک پر فتاویٰ کا مطالعہ بھی مفید رہے گا۔
انسانی اعضاء کی پیوند کاری کا حکم
انسانی جگر کی پیوندکاری کو خون پر قیاس کرنا
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"وأما ما يرجع إلى الواهب فهو أن يكون الواهب من أهل الهبة، وكونه من أهلها أن يكون حرا عاقلا بالغا مالكا للموهوب حتى لو كان عبدا أو مكاتبا أو مدبرا أو أم ولد أو من في رقبته شيء من الرق أو كان صغيرا أو مجنونا أو لا يكون مالكا للموهوب لا يصح، هكذا في النهاية. وأما ما يرجع إلى الموهوب فأنواع منها أن يكون موجودا وقت الهبة فلا يجوز هبة ما ليس بموجود وقت العقد....ومنها أن يكون مالا متقوما فلا تجوز هبة ما ليس بمال أصلا كالحر والميتة والدم وصيد الحرم والخنزير وغير ذلك ولا هبة ما ليس بمال مطلق كأم الولد والمدبر المطلق والمكاتب ولا هبة ما ليس بمال متقوم كالخمر، كذا في البدائع."
( کتاب الھبة، ج: 4، ص: 374، ط:رشیدیة)
مفتیٔ اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب -قدس اللہ سرہ -تحریر فرماتے ہیں:
"انسان کے اعضاء و اجزاء انسان کی اپنی ملکیت نہیں ہیں جن میں وہ مالکانہ تصرفات کرسکے، اسی لیے ایک انسان اپنی جان یا اپنے اعضاء و جوارح کو نہ بیچ سکتا ہے نہ کسی کو ہدیہ اور ہبہ کے طور پر دے سکتا ہے، اور نہ ان چیزوں کو اپنے اختیار سے ہلاک و ضائع کرسکتا ہے۔ شریعتِ اسلامیہ کے اصول میں تو خود کشی کرنا اور اپنی جان یا اعضاء رضاکارانہ طور پر یا بقیمت کسی کو دے دینا قطعی طور حرام ہی ہے جس پر قرآن و سنت کی نصوصِ صریحہ موجود ہیں، تقریباً دنیا کے ہر مذہب و ملت اور عام حکومتوں کے قوانین میں اس کی گنجائش نہیں، اس لیے کسی زندہ انسان کا کوئی عضو کاٹ کر دوسرے انسان میں لگادینا اس کی رضامندی سے بھی جائز نہیں ۔۔۔ شریعتِ اسلام نے صرف زندہ انسان کے کارآمد اعضاء ہی کا نہیں، بلکہ قطع شدہ بے کار اعضاء و اجزاء کا استعمال بھی حرام قرار دیا ہے، اور مردہ انسان کے کسی عضو کی قطع و برید کو بھی ناجائز کہا ہے، اور اس معاملہ میں کسی کی اجازت اور رضامندی سے بھی اس کے اعضاء و اجزاء کے استعمال کی اجازت نہیں دی، اور اس میں مسلم و کافر سب کا حکم یک ساں ہے؛ کیوں کہ یہ انسانیت کا حق ہے جو سب میں برابر ہے۔ تکریمِِ انسانی کو شریعتِ اسلام نے وہ مقام عطا کیا ہے کہ کسی وقت کسی حال کسی کو انسان کے اعضاء و اجزاء حاصل کرنے کی طمع دامن گیر نہ ہو، اور اس طرح یہ مخدومِ کائنات اور اس کے اعضاء عام استعمال کی چیزوں سے بالاتر ہیں جن کو کاٹ چھانٹ کر یا کوٹ پیس کر غذاؤں اور دواؤں اور دوسرے مفادات میں استعمال کیا جاتا ہے، اس پر ائمہ اربعہ اور پوری امت کے فقہاء متفق ہیں، اور نہ صرف شریعتِ اسلام بلکہ شرائعِ سابقہ اور تقریباً ہر مذہب و ملت میں یہی قانون ہے"۔
(جواہرالفقہ ،انسانی اعضاء کی پیوندکاری، ج: 7، ص:60تا62، ط: مکتبہ دار العلوم کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610100515
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن