بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

عورت کا اپنے سمدھی بیٹی کی ساس اور سسر کے ساتھ حج یا عمرہ پر جانے کا حکم


سوال

کیا کوئی عورت اپنے سمدھی (بیٹی کی ساس اور سسر) کے ساتھ حج یا عمرہ پر جاسکتی ہے؟ جبکہ اس عورت کا شوہر فوت ہو گیا ہو۔

جواب

واضح رہے کہ عورتوں کےلیے  محرم کے بغیر شرعی مسافتِ سفر ( 48 میل یعنی78 کلو میٹر)  کی مقداریا اس سے زائد سفر کرنا، خواہ عورت جوان ہو یا بوڑھی ہو، تنہا ہو یا اس کے ساتھ دیگر عورتیں بھی ہوں، حج و عمرے کا سفر ہو یا کوئی اور سفر، کسی بھی حالت میں  محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں، صورتِ مسؤلہ میں اس عورت کےلیے سمدھی (بیٹی کے سسر) چوں کہ  نامحرم ہے،لہٰذا اس کےلیے شوہر نہ ہونے کی صورت میں محرم (باپ، بیٹا، بھائی یا کوئی اور محرم) کے بغیر سمدھی (بیٹی کے سسر) کے ساتھ حج یا عمرے پر جانا شرعًا جائز نہیں ہے۔ 

حدیث شریف میں ہے:

"عن أبي سعيد الخدري قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر أن تسافر سفرا يكون ثلاثة أيام فصاعدا إلا ومعها أبوها، أو ابنها، أو زوجها، أو أخوها، أو ذو محرم منها."

ترجمہ:’’حضرت ابوسعیدخدری رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کے لیے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہو، حلال نہیں کہ وہ تین دن  یا اس سے زائد کا سفر کرے اور اس کے ساتھ اس کا باپ یا اس کا بھائی یا اس کا شوہر یا اس کا بیٹا یا اس کا کوئی محرم نہ ہو۔‘‘

"عن أبي معبد قال: سمعت ابن عباس يقول:  سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يخطب يقول: لا يخلون رجل بامرأة إلا ومعها ذو محرم، ولا تسافر المرأة إلا مع ذي محرم، فقام رجل فقال: يا رسول الله، إن امرأتي خرجت حاجة، وإني اكتتبت في غزوة كذا وكذا، قال: انطلق، فحج مع امرأتك."

(صحيح مسلم، ج:2، ص:977/978، رقم الحدیث:1340/1341، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

ترجمہ:’’حضرت ابو معبد ؒسے مروی ہے  وہ فرماتے ہیں کہ  میں نے ابن عبا س رضی اللہ عنہما کو یہ فرماتے ہوئے  سناکہ  وہ کہہ رہے تھے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ  آپ خطبہ دیتے ہوئے فر ما رہے تھے کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ ہر گز تنہا نہ ہو  الّا یہ کہ اس کے ساتھ کوئی محرم ہو، اور کوئی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے ، (مجلس میں سے)ایک آدمی اٹھااور کہنے لگا: اے اللہ کے رسول  ! میری بیوی حج کے لیے نکلی ہے اور میرا نام فلاں فلاں غزوے میں لکھا جا چکا ہے ، آپ نے فرمایا: جاؤ اور اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘

مجمع الأنہر میں ہے:

"(و) مع وجود (زوج أو محرم) الذي حرم عليه نكاحها أبدا بقرابة أو رضاع أو صهارة مسلما أو عبدا أو كافرا فلا ينضم الزوج ولذلك ذكره (للمرأة) الشابة والعجوز بعدما كانت خالية عن العدة أية عدة كانت وظاهره أن المحرم شرط الوجوب. وفي الإصلاح وهو الصحيح لكن في الجوهرة أن الصحيح أي المحرم أنه من شرائط الأداء حتى يجب الإيصاء به (إن كان بينها) أي بين مكان المرأة. (وبين مكة مسافة سفر) أي مسافة ثلاثة أيام ولياليها؛ لأنه لو كان أقل منها يجوز بلا محرم.

(ولا تحج) المرأة (بلا أحدهما) أي الزوج أو المحرم إلا عند الشافعي ومالك تحج مع النساء الثقات لحصول الأمن بالمرافقة ولنا قوله عليه الصلاة والسلام «لا تحجن امرأة إلا ومعها محرم» ؛ ولأن بدون المحرم يخاف عليها الفتنة وتزاد بانضمام غيرها إليها فلا يفيد كون النساء الثقات معها وهذا الحديث معلل بدفع خوف الفتنة، والزوج أدفع له فيلحق بالمحرم دلالة ولا خوف فيما دون الثلاثة فلا يتناوله الحديث."

(كتاب الحج، ج:1، ص:262، ط:دار إحياء التراث العربي بيروت)

فتاویٰ عالمگیری میں ہے:

"(ومنها المحرم للمرأة) شابة كانت أو عجوزا إذا كانت بينها وبين مكة مسيرة ثلاثة أيام هكذا في المحيط، وإن كان أقل من ذلك حجت بغير محرم كذا في البدائع والمحرم الزوج، ومن لا يجوز مناكحتها على التأبيد بقرابة أو رضاع أو مصاهرة كذا في الخلاصة."

(كتاب المناسك، الباب الأول، ج:1، ص:218، ط:المكتبة الرشيدية كوئته)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144602101296

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں