میری بیوی نے مجھ پر جھوٹے الزامات لگاکر خلع کا کیس دائر کردیا ہے،میں اس خلع پر راضی نہیں ہوں اور خلع دینے کو بالکل تیار نہیں ہوں،اس خلع کے مقدمے میں جو الزامات ہیں،میں حلفاً کہتاہوں کہ یہ سب جھوٹے ہیں اور بے بنیادہیں،سوائے دو کے۔1۔قرضہ کا الزام: وہ تو کاروبار میں نقصان کی وجہ سے ہواہے۔2۔ سودی کاروبار کاالزام:وہ انجانے میں ہوا، مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرے شریک نے بینک سے لون لیا ہواہے، جب مجھے معلوم ہواتو ہم نے(میں نے اور شریک نے ) فوراً علیحدگی اختیار کرلی،یہ تین سال پہلے کا واقعہ ہے،اگر سودی کاروبار کی وجہ سے علیحدگی کرنی تھی،تو پہلے ہی دور ہوجاتی،جب معلوم ہواتھا، مگر اب اس بات کو بنیاد بنانا جب کہ وہ سودی کاروبار سے میں ہٹ چکا ہوں،لہذا یہ الزام بھی ٖغلط ہے،اس مسئلہ کی راہ نمائی فرمائیں۔
ان الزامات کے کوئی گواہ بھی نہیں ،اس مسئلہ کو بیوی کے بھائی جو بنوری ٹاؤن سے تعلیم شدہ مفتی ہیں،انہوں نے اپنی بہن کی باتوں کو شرعی گواہ نہ ہونے کی بناء پر بے بنیاد قرار دے کر فتوی بھی دیا ہے اور جو انہوں نے تحریر لکھی ہے،وہ بھی منسلک ہے،لیکن کسی کے ور غلانے پر عورت نے اب کورٹ کا رخ کیا ہے،شادی کو 28 سال ہوچکے ہیں،11 بچے ہیں،تین کی وفات ،دو معذور، دو کا حمل ساقط ہوگیا تھا،باقی چھ بچے موجود میری پرورش میں ہیں ان کی والدہ سمیت۔
خلع کےمتعلق عدالتی فیصلے کو دیکھنے کے بعد ہی حتمی جواب دیا جاسکےگا۔تاہم اصولی طور پر جواب یہ ہے کہ:
خلع معتبر ہونے کے لیے شرعاً زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے ،اس لیے بیوی اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر عدالت سے خلع لے لے اور عدالت اس کے حق میں یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کر بھی دے اور شوہر اس خلع کو زبانی یا تحریری طور پر قبول نہ کرے تو شرعاً ایسا خلع معتبر نہیں ہوتا، اس سے نکاح ختم نہیں ہوتا۔
فتاویٰ شامی میں ہے:
" وأما ركنه فهو كما في البدائع إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 3، ص: 441، ط: دارالفكر بيروت)
مبسوط سرخسی میں ہے:
" فيحتمل الفسخ بالتراضي أيضا وذلك بالخلع واعتبر هذه المعاوضة المحتملة للفسخ بالبيع والشراء في جواز فسخها بالتراضي."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، ج: 6، ص: 171، ط: دارالمعرفة بیروت)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144603101303
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن