کیا عورت مارچ جائز ہے، آج کل جس طرح مختلف تنظیموں کی طرف سے کسی بھی وجہ سے عورت مارچ کروائے جاتے ہیں، جن کی دیکھا دیکھی کچھ دینی تنظیموں کی طرف سے فلسطین کے لیے عورت مارچ کروایا گیا اور اس میں باپردہ اور بے پردہ خواتین کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور سوشل میڈیا گروپس پر ان کو خوب کوریج دی گئی اور تاریخ کا سب سے بڑا عورت مارچ کہا گیا، اس کو اور ایسے ہی ایک دینی گروپ کی ایڈمن کو جو کہ عالمہ بھی ہیں جب ان سے یہ کہا گیا کہ عورت مارچ جائز ہے کہ اس طرح عورتیں سڑکوں پر نکلیں، تو انھوں یہ کہہ کر اگلے بندے کو خاموش کروایا کہ یہ اختلافی مسئلہ ہے، جیسا کہ تصویر کا مسئلہ اختلافی ہےویسے ہی عورت مارچ کا مسئلہ بھی اختلافی ہے، تو پوچھنا یہ ہے کہ کیا واقعی یہ مسئلہ اختلافی ہے، کہ دین والوں کے لیے عورت مارچ جائز اور دنیا داروں کے لیے ناجائز ہے؟
اسلامی شریعت میں عورتوں کے لیے باپردہ رہنے اور بلاضرورت گھروں سے نہ نکلنے اور اپنی آواز اور نگاہیں پست رکھنے جیسے احکام کی روشنی میں کسی قسم کے عورت مارچ کے لیے نکلنا جائز نہیں ہے۔ہمارے علم کے مطابق اس میں اہل ِ علم کا اختلاف ہے نہ اختلاف کی کوئی شرعی بنیاد ہے۔
قرآن مجید میں ہے:
{إِنَّ الَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ الْفَاحِشَةُ فِي الَّذِينَ آمَنُوا لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۚ وَاللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ} [النور:19]
ترجمہ: جو چاہتے ہیں کہ چرچا ہو بدکاری کا ایمان والوں میں ان کے لیے عذاب ہے درد ناک دنیا اور آخرت میں، اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔ (از شیخ الہند رحمہ اللہ)
دوسری جگہ ارشاد ہے:
"{وَقَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ وَلَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاهِلِيَّةِ الْأُولَى وَأَقِمْنَ الصَّلَاةَ وَآتِينَ الزَّكَاةَ وَأَطِعْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ} [الأحزاب: 33]"
"ترجمہ: اور تم اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم زمانہ جاہلیت کے دستور کے موافق مت پھرو اور تم نمازوں کی پابندی رکھو اور زکاۃ دیا کرو اور اللہ کا اور اس کے رسول (علیہ السلام) کا کہنا مانو ۔ (بیان القرآن)"
’’ أحکام القرآن للفقیہ المفسر العلامۃ محمد شفیع رحمہ اللہ‘‘ میں ہے:
"والثاني: قوله تعالى: {وقرن في بیوتکن ولا تبرجن تبرج الجاهلیة الأولی} ... فدلت الآیة علی أن الأصل في حقهن الحجاب بالبیوت والقرار بها، ولکن یستثنی منه مواضع الضرورة فیکتفی فیها الحجاب بالبراقع والجلابیب ... فعلم أن حکم الآیة قرارهن في البیوت إلا لمواضع الضرورة الدینیة کالحج والعمرة بالنص، أو الدنیویة کعیادة قرابتها وزیارتهم أو احتیاج إلی النفقة وأمثالها بالقیاس، نعم! لا تخرج عند الضرورة أیضًا متبرجةّ بزینة تبرج الجاهلیة الأولی، بل في ثیاب بذلة متسترة بالبرقع أو الجلباب ، غیر متعطرة ولامتزاحمة في جموع الرجال؛ فلا یجوز لهن الخروج من بیوتهن إلا عند الضرورة بقدر الضرورة مع اهتمام التستر والاحتجاب کل الاهتمام ۔ وما سوی ذلک فمحظور ممنوع."
(ج: 3، ص: 317 – 319، ط: إدارة القرآن والعلوم الإسلامية)
تفسیرِ رازی میں ہے:
"لما نهى عن استماع الصوت الدال على وجود الزينة فلأن يدل على المنع من إظهار الزينة أولى الثانية: أن المرأة منهية عن رفع صوتها بالكلام بحيث يسمع ذلك الأجانب إذ كان صوتها أقرب إلى الفتنة من صوت خلخالها، ولذلك كرهوا أذان النساء لأنه يحتاج فيه إلى رفع الصوت والمرأة منهية عن ذلك الثالثة: تدل الآية على حظر النظر إلى وجهها بشهوة إذا كان ذلك أقرب إلى الفتنة."
(الحكم السابع حكم النظر، سورۃ النور، آیت: 30، ج: 23، ص: 367، ط: دار إحياء التراث العربي)
حدیث شریف میں ہے:
"حدثنا محمد بن بشار قال: حدثنا عمرو بن عاصم قال: حدثنا همام، عن قتادة، عن مورق، عن أبي الأحوص، عن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «المرأة عورة، فإذا خرجت استشرفها الشيطان». هذا حديث حسن صحيح غريب."
(أبواب الرضاع، باب، ج: 3، ص: 468، ط: مكتبة مصطفى البابي)
تبیین الحقائق میں ہے:
"وحيث أبحنا لها الخروج فإنما يباح بشرط عدم الزينة وتغيير الهيئة إلى ما لا يكون داعية لنظر الرجال والاستمالة قال الله تعالى {ولا تبرجن تبرج الجاهلية الأولى}."
(كتاب الطلاق، باب النفقة، ج:3، ص:50، ط:دار الكتاب الإسلامي)
فتاوی شامی میں ہے:
"(و) لها (السفر والخروج من بيت زوجها للحاجة...فلا تخرج إلا لحق لها أو عليها."
(كتاب النكاح، باب المهر، مطلب في منع الزوجة نفسها لقبض المهر، ج:3، ص:145، ط:سعيد)
المبسوط للسرخسي میں ہے:
"وفي اختلاط النساء مع الرجال عند الزحمة من الفتنة والقبح ما لا يخفى."
(كتاب أدب القاضي، ج: 16، ص:80، ط: دار المعرفة بيروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولهذا لا يجوز لها الخروج وحدها. والخوف عند اجتماعهن أكثر، ولهذا حرمت الخلوة بالأجنبية، وإن كان معها امرأة أخرى."
(كتاب الحج، فصل: وأما شرائط فرضيته فنوعان، ج: 2، ص: 123، ط: دار الكتب العلمية)
الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:
"اختلاط الرجال بالنساء: يختلف حكم اختلاط الرجال بالنساء بحسب موافقته لقواعد الشريعة أو عدم موافقته، فيحرم الاختلاط إذا كان فيه:
أ - الخلوة بالأجنبية، والنظر بشهوة إليها.
ب - تبذل المرأة وعدم احتشامها.
ج - عبث ولهو وملامسة للأبدان كالاختلاط في الأفراح والموالد والأعياد، فالاختلاط الذي يكون فيه مثل هذه الأمور حرام، لمخالفته لقواعد الشريعة."
(باب الاختلاط، ج: 2، ص: 290، ط: وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144602101382
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن