اگر خواتین کے لیےکوئی بھی نماز گھر سے باہر پڑھنے کی ممانعت ہیں اور یہ مکروہ تحریمی میں آتا ہے،تو آج کل مختلف علاقوں میں دینی تعلیمات کی مجالس ہوتی ہیں اور عورتیں اس میں شریک ہوتی ہیں تو کیا یہ صحیح عمل ہے؟
رسول اللہ ﷺ کے پاکیزہ دور میں بعض مصالح (مثلاً خواتین کے لیے اسلامی عقائد اور اَحکام کی تعلیم) کی خاطر عورتوں کو مسجد میں آکر نماز باجماعت ادا کرنے کی اجازت اس لیے دی گئی تھی، کیوں کہ وہ زمانہ نزول وحی اور خیر و برکت کا زمانہ تھا اور فتنہ کا خوف نہیں تھا ،لیکن اس کے باوجود بھی اس زمانے میں بھی رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے لیے جہاں تک ممکن ہو مخفی مقام پر اور چھپ کر نماز پڑھنے کو پسند فرمایا اور اسے ان کے لیے مسجدِ نبوی میں نماز پڑھنے سے بھی زیادہ فضیلت اور ثواب کا باعث بتایا، چناں چہ رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں کہ ایک خاتون کمرہ میں نماز پڑھے یہ صحن کی نماز سے بہتر ہے، اور کمرے کے اندرچھوٹی کوٹھری میں نماز پڑھے، یہ کمرہ کی نماز سے بہتر ہے۔
لیکن رسول اللہ ﷺ کے پردہ فرمانے اور اسلامی احکام کی تکمیل اور تعلیم کا مقصد پورا ہونے کے بعد جب عورتوں کے خروج کی ضرورت بھی نہ رہی اور ماحول کے بگاڑ کی وجہ سے فتنے کا اندیشہ ہوا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عورتوں (خصوصاً جوان عورتوں) کے نماز میں حاضر ہونے سے منع فرمادیا، اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس فرمان پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اعتراض نہیں کیا۔بلکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اگر نبی کریم ﷺ وہ حالت دیکھتے جو عورتوں نے پیدا کردی ہے تو عورتوں کو مسجد میں آنے کی اجازت نہ دیتے۔یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام ان روایات اور دیگر نصوص کو سامنے رکھ کر یہ فتوی دیتے ہیں کہ عورتوں کا مسجد میں یا باہر جاکر کسی جگہ میں نمازیں پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔
نیزعورتوں کےلیے عمومی مجالس میں شرکت کرنے کے لیے باہر نکلنا بھی جائز نہیں ہے، لیکن دین سیکھنے کی غرض سے شرعی پردے کی رعایت کے ساتھ کسی مستند عالم دین کےدرس قرآن اور وعظ ونصیحت کی مجلس میں شرکت کرنے کی گنجائش ہے۔کیوں کہ شرعی پردہ کی رعایت کے ساتھ وعظ ونصیحت کی مجلس میں شرکت کرنا اور جمع ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور سے ثابت ہے۔ پس اگر خواتین باپردہ ہوکر وعظ و نصیحت سننے کے لیے کسی گھر میں جمع ہوتی ہوں تو اس کی گنجائش ہوگی، بشرطیکہ ان کا جمع ہونا ان کے لیے یا واعظ کے لیے فتنہ کا باعث نہ ہو۔
صحیح بخاری میں ہے:
"حدثنا آدم، قال: حدثنا شعبة، قال: حدثني ابن الأصبهاني، قال: سمعت أبا صالح ذكوان، يحدث عن أبي سعيد الخدري قالت النساء للنبي صلى الله عليه وسلم: غلبنا عليك الرجال، فاجعل لنا يوما من نفسك، فوعدهن يوما لقيهن فيه، فوعظهن وأمرهن، فكان فيما قال لهن: «ما منكن امرأة تقدم ثلاثة من ولدها، إلا كان لها حجابا من النار» فقالت امرأة: واثنتين؟ فقال: «واثنتين»."
(باب هل يجعل للنساء يوم على حدة في العلم، ج:1، ص:32، رقم:101، ط: دار طوق النجاة)
عمدة القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:
"قال النووي: فيه استحباب وعظ النساء وتذكيرهن الآخرة وأحكام الإسلام، وحثهن على الصدقة، وهذا إذا لم يترتب على ذلك مفسدة أو خوف فتنة على الواعظ أو الموعوظ، ونحو ذلك."
(باب عظة الإمام النساء وتعليمهن، ج:2، ص:123، ط: دار إحياء التراث العربي - بيروت)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويكره حضورهن الجماعة) ولو لجمعة وعيد ووعظ (مطلقا) ولو عجوزا ليلا (على المذهب) المفتى به لفساد الزمان."
(كتاب الصلاة، باب الامامة، ج:1، ص:566، ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولا يباح للشواب منهن الخروج إلى الجماعات، بدليل ما روي عن عمر رضي الله عنه أنه نهى الشواب عن الخروج؛ ولأن خروجهن إلى الجماعة سبب الفتنة، والفتنة حرام، وما أدى إلى الحرام فهو حرام."
(كتاب الصلاة، فصل بيان من يصلح للإمامة في الجملة، ج:1، ص:157، ط:دار الكتب العلمية)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"وكره لهن حضور الجماعة إلا للعجوز في الفجر والمغرب والعشاء والفتوى اليوم على الكراهة في كل الصلوات لظهور الفساد. كذا في الكافي وهو المختار. كذا في التبيين."
(كتاب الصلاة، الباب الخامس في الإمامة، ج:1، ص:89، ط:دارالفكر بيروت)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"کوئی شخص اپنے محلہ کی غیر محرم عورتوں کو پردہ میں رکھ کر حیض و نفاس کا مسئلہ، نماز روزہ پاکی ناپاکی کے بارے میں وعظ و نصیحت سنائے اور بتلائے تو یہ جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: جائز ہے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بکثرت ثابت ہے، لیکن اگر فتنہ کا اندیشہ ہو تو احتیاط کرنا چاہیے، خاص کر حیض ونفاس کے مسائل اپنی محرم عورتوں کو سمجھادے اور پھر وہ عورتیں دوسری عورتوں کو سمجھادیں، جیسا کہ ازواج مطہرات سمجھایا کرتی تھیں۔ یا مردوں کو سمجھادے اور وہ اپنی عورتوں کو سمجھادیں، غیر محرم عورتوں کے ساتھ خلوت ہر گز نہ کرے کہ یہ ممنوع ہے۔ "
(کتاب العلم، ج: 3، ص: 377، ط: ادارہ الفارق کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609100284
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن