میرے والد صاحب کے پاس دادا کی پگڑی کی ایک دکان تھی، جو 1997ء میں والد صاحب نے چھ لاکھ روپے میں دیگر ورثاء کی موجودگی میں آگے کسی اور کو بیچ دی، پھراس کے بعد والد صاحب نے مذکورہ رقم میں سے سب بہن بھائیوں کو حصہ دینے کا ارادہ کیاتو بہن بھائیوں میں سےکسی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی، اور وقت گزرتا رہا، معاملات بھی صحیح چلتے رہے، کچھ عرصے کے بعد والد صاحب نے دوبارہ حصہ دینے کا ارادہ کیاتو ایک بہن کہنے لگی کہ ہمیں آج کی قیمت کے اعتبار سے حصہ دو۔
براہِ کرم اس معاملہ پر ہماری شرعی راہ نمائی فرمائیں کہ والد صاحب کس قیمت کے اعتبار سے حصوں کو ادا کریں۔آیا1997ء میں بیچی ہوئی رقم (چھ لاکھ) کے حساب سے حصے ادا کریں یا موجودہ مارکیٹ ویلیو کے حساب سے حصےادا کریں۔
وضاحت:مذکورہ چھ لاکھ روپے کی رقم اس وقت گھریلو ضروریات میں خرچ ہوگئے تھے، ان سے کوئی کاروبار وغیرہ نہیں چلایا گیاتھا۔
تنقیح:کیا سائل کے والد یا دادا نے مذکورہ دکان میں اپنی ذاتی رقم سے کوئی اضافی کام کروایا تھا ، مثلاً: لکڑی، ٹائلز یا دیگر تعمیراتی کام وغیرہ ؟
جواب تنقیح: والد صاحب اور دادا نے تعمیراتی کام وغیرہ کچھ نہیں کروایا تھا۔
واضح رہے کہ مروجہ پگڑی کا معاملہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی نہ تو مکمل خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ یعنی کرایہ داری ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا ایک ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان یا دکان بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتا ہے، تاہم پگڑی پر لینے والا شخص صرف اپنی رقم کا مالک ہوتاہے،البتہ اگر پگڑی پر مکان یا دکان لینے کے بعد پگڑی پر لینے والے شخص نے اپنی ذاتی رقم سے اس میں کوئی اضافی کام کروایا ہو مثلا لکڑی فرنیچر وغیرہ کا کام، رنگ و روغن یا بجلی وغیرہ کا کام کرایا ہو، تو مالک مکان سے پگڑی کی اصل رقم سے زائد رقم لینا جائز ہوتا ہے، تاہم پگڑی کی دوکان یا مکان وراثت میں شامل نہیں ہوتی، صرف اصل رقم پگڑی پر لینے والے کے ترکہ میں شامل ہوتی ہے، لہذا صورت مسئولہ میں مذکورہ دکان چونکہ سائل کے دادا کی ملکیت نہیں تھی، لہذا اس دکان (جو اب موجود بھی نہیں)کی تقسیم کے مطالبہ کا شرعا ورثاء کو حق نہیں ہوگا،پس جتنی رقم پگڑی پر لیتے وقت سائل کے دادا نے جتنی رقم جمع کروائی تھی،یا اب مالک بخوشی جو رقم دے گا وہ رقم تمام ورثاء میں تقسیم ہوگی، یعنی چھ لاکھ روپے ، وہی ورثاء میں حصص شرعیہ کے تناسب سے تقسیم کیے جائیں گے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الأشباه: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف. (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح عنها."
(کتاب البیوع، ج:4، ص:518، ط: سعید)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولو أجرها المستأجر بأكثر من الأجرة الأولى فإن كانت الثانية من خلاف جنس الأولى طابت له الزيادة، وإن كانت من جنس الأولى لاتطيب له حتى يزيد في الدار زيادة من بناء أو حفر أو تطيين أو تجصيص."
(کتاب الاجارۃ، فصل فی حکم الاجارۃ، ج:4، ص:206، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609101382
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن