ایک عورت کا انتقال ہوا، وہ جس گھر میں رہائش پذیر تھی وہ پگڑی کا تھا، جس کی پرچی ان کے نام پر تھی ، ان کے انتقال کے وقت ان کے ورثاء میں تین بیٹیاں اور ایک بھتیجا ہے جو انڈیا میں ہے، شوہر اور والدین کا زندگی میں ہی انتقال ہوگیا تھا، اب اس گھر کی قیمت تقریباً 10 لاکھ روپے اور ایک شخص چاہتا ہے کہ ان سے وہ گھر لے لے، پرچی ورثاء کے نام پر ہی رہے، اور جو قیمت ہو وہ ورثاء کو دی جائے، تو شرعی طور پر اس طرح کرنا کیسا ہے؟
صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت نے اگر اس گھر میں کوئی اضافی کام مثلارنگ روغن وغیرہ کروایا ہو تو ورثاء کے لیے کسی اور کو دیتے ہوئے اس کے عوض اضافی رقم لینا جائز ہوگا،اس صورت میں ساری رقم مذکورہ عورت کی وراثت میں تقسیم ہوگی ، نیز اگر کوئی زائد کام نہیں کروایا تو اضافی رقم لینا جائز نہیں ہوگا، بلکہ اصل رقم جو مذکورہ عورت نے مالکِ مکان کو دی تھی صرف وہی رقم لے سکتے ہیں، بہرصورت مذکورہ تفصیل کے مطابق حاصل ہونے والی جائز رقم ان کے تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم ہوگی۔
مذکورہ تفصیل کے مطابق مرحومہ کے ترکہ (بشمول دس لاکھ) کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ کل ترکہ میں سے سب سے پہلے ان کی تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں، اس کے بعد اگر ان پر کوئی قرضہ ہو تو اسے ادا کیا جائے،پھر اگر انہوں نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی ماندہ ترکہ کے ایک تہائی سے اسے نافذکیا جائے، اس کے بعد باقی جائیداد منقولہ وغیر منقولہ کے9 حصے بناکر مرحومہ کی ہر بیٹی کو 2 حصے اور بھتیجے کو تین حصے ملیں گے۔ نیز بھتیجے کا حصہ بھی ان کو دینا ضروری ہے۔
صورت تقسیم یہ ہے:
میت 3/ 9
بیٹی | بیٹی | بیٹی | بھتیجا |
2 | 1 | ||
2 | 2 | 2 | 3 |
یعنی فیصد کے اعتبار سے مرحومہ کی ہر بیٹی کو 22.22 فیصد اور بھتیجے کو 33.33 فیصد ملے گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك ولا يجوز الصلح عنها."
(کتاب البیوع، ج:4، ص:518، ط:سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"ما تركه المیت من الأموال صافیا عن تعلق حق الغیر بعین من الأموال."
(کتاب الفرائض،ج:7، ص:759، ط:سعید)
السراجی میں ہے:
"ثم يقسم الباقي بين ورثته بالكتاب والسنة وإجماع الأمة."
(الحقوق المتعلقة بتركة المیت اربعة، ص:3، ط:رحمانيه)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606102644
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن