میں نے ایک شخص کو کاروبار کے لیے چھ لاکھ روپے دیے ہوئے ہیں،جس پر وہ مجھے ہر ماہ 25 ہزار روپے نفع دیتا ہے، کیا یہ صورت صحیح ہے؟
صورت مسئولہ میں سائل کے لئے متعین منافع وصول کرناجائزنہیں ، بلکہ مضاربت میں نفع کی تعیین نفع کے فیصد کے اعتبار سے کرنا ضروری ہے، اگر نفع کی تعیین ایک مقرر رقم کے ذریعے کی جائے، یا کاروبار ہی نہ ہو، بلکہ محض رقم دے کر نفع لیا جائے تو یہ جائز نہیں ہے، بلکہ یہ قرض دے کر اس پر نفع حاصل کرنا ہے، اور قرض دے کر اس پر مشروط نفع حاصل کرنا سود ہے، اور سود کا لینا،دینا، اس کا معاملہ کرنا ناجائز، حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اور شرکت میں رقم کے تناسب سے نفع لینا جائز ہوتا ہے۔
الصحیح لمسلم میں ہے:
"عن جابر، قال: لعن رسول الله صلى الله عليه وسلم آكل الربا، ومؤكله، وكاتبه، وشاهديه ، وقال: هم سواء".
( 3/1219، باب لعن آ كل الربا ومؤكله، ط:، دار احیاء التراث، بیروت)
الجامع الصغير میں ہے:
" كل قرض جر منفعةً فهو رباً."
(ص:395، برقم :9728، ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت)
بدائع الصنائع میں ہے:
"لو أن رجلا دفع إلى رجل ألف درهم ولم يقل: مضاربة ولا بضاعة، ولا قرضا ولا شركة.
وقال: ما ربحت فهو بيننا فهذه مضاربة؛ لأن الربح لا يحصل إلا بالشراء والبيع، فكان ذكر الربح ذكرا للشراء والبيع، وهذا معنى المضاربة."
(کتاب المضاربۃ،ج:6۔ص:80،ط:دارالکتب العلمیۃ)
وفیہ ایضا:
"فإن شرطا عددا مقدرا بأنشرطا أن يكون لأحدهما مائة درهم من الربح أو أقل أو أكثر والباقي للآخر لا يجوز، والمضاربة فاسدة؛ لأن المضاربة نوع من الشركة، وهي الشركة في الربح، وهذا شرط يوجب قطع الشركة في الربح."
(کتاب المضاربۃ،فصل فی بیان حکم المضاربۃ،ج:6،ص:86،ط:دارالکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102114
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن