بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

پیشاب کے قطروں کی بیماری میں قرآن کریم کو چھونے کا حکم


سوال

اگر پیشاب کے قطرے کی بیماری ہو تو قرآن کریم کو چھو سکتے ہیں؟ پوری وضاحت کے ساتھ جواب دیجیے۔

جواب

اگر کسی  کو   پیشاب کے قطرے آنے کی ایسی بیماری ہو کہ کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں پاک اور باوضو ہو کر اس وقت کی فرض نماز پڑھنے کا وقت بھی اس عذر کے بغیر  نہ ملے، یعنی درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا کہ ایک وقت کی فرض نماز ادا کر سکے  تو ایسا شخص  شرعاً معذور کہلائے گا۔

معذورین کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کریں اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہیں فرائض اور نوافل ادا کریں ،نیز اسی وقت کے اندر قرآنِ کریم چھوکر اور ہاتھوں میں پکڑ کر تلاوتِ قرآنِ کریم کرنا بھی جائز ہوگا (خواہ اس ایک وقت کے درمیان میں جتنے بھی قطرے آجائیں، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بشرطیکہ  وضو توڑنے والی کوئی اور چیز مثلًا: قضاءِ حاجت، جسم سے خون نکلنا وغیرہ پیش نہ آئے، ورنہ وقت کے اندر بھی وضو ٹوٹ جائے گا)بہرحال جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو ایسے معذورِ شرعی کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا اور نیا وضو کرنے سے پہلے نماز پڑھنا اور قرآنِ کریم کو چھونا جائز نہیں ہوگا۔

بہرحال ایک دفعہ معذورِ شرعی بن جانے کے بعد جب تک کسی نماز کا مکمل وقت اس عذر  کے (مثلًا: قطرے نکلے )  بغیر نہ گزر جائے وہ شخص شرعًا معذور رہے گا، اگر کسی نماز کا مکمل وقت اس عذر (قطروں) کے بغیر گزر گیا تو پھر وہ شخص شرعی معذور نہیں رہے گا اور جو شخص شرعی معذور نہ ہو تو جب بھی پیشاب کا قطرہ نکلے گا تو اس کا وضو ٹوٹ جائے گا، اس لیے پیشاب کا قطرہ نکلنے کے بعد اس کے لیے وضو کیے بغیر نماز پڑھنا اور قرآنِ کریم کو چھونا جائز نہیں ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے :

"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه  (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته.

(قوله: اللام للوقت) أي: فالمعنى لوقت كل صلاة، بقرينة قوله بعده فإذا خرج الوقت بطل، فلا يجب لكل صلاة خلافا للشافعي أخذا من حديث «توضئي لكل صلاة» قال في الإمداد: وفي شرح مختصر الطحاوي روى أبو حنيفة عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة - رضي الله عنها - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لفاطمة بنت أبي حبيش: توضئي لوقت كل صلاة» ولا شك أنه محكم؛ لأنه لا يحتمل غيره بخلاف حديث " لكل صلاة " فإن لفظ الصلاة شاع استعماله في لسان الشرع والعرف في وقتها فوجب حمله على المحكم وتمامه فيه.

(قوله: ثم يصلي به) أي: بالوضوء فيه أي: في الوقت (قوله: فرضا) أي: أي فرض كان نهر أي: فرض الوقت أو غيره من الفوائت (قوله: بالأولى) ؛ لأنه إذا جاز له النفل وهو غير مطالب به يجوز له الواجب المطالب به بالأولى، أفاده ح، أو؛ لأنه إذا جاز له الأعلى والأدنى يجوز الأوسط بالأولى (قوله: فإذا خرج الوقت بطل) أفاد أن الوضوء إنما يبطل بخروج الوقت فقط لا بدخوله خلافا لزفر، ولا بكل منهما خلافا للثاني وتأتي ثمرة الخلاف."

(کتاب الطهارۃ، باب الحیض، مطلب في أحکام المعذور، ج:1، ص:305، ط:سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... وشرط بقائه أن لا يمضي عليه وقت فرض إلا والحدث الذي ابتلي به يوجد فيه هكذا في التبيين. المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع، ج:1،ص:40-41، ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144605100874

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں