1۔ میں جب چھوٹا پیشاب کرتا ہوں تو ٹشو پیپر کے ساتھ استنجا کرتا ہوں، استنجا اس طریقے سے کرتا ہوں کے پہلے بڑے بڑے قطروں کا ٹشو پیپر کے ٹکڑوں سےاستنجا کرتا ہوں، پھر کچھ چھوٹے چھوٹے قطرے آتے ہیں جس کو ٹشو کے بہت ہی چھوٹے ٹکروں سے صاف کرتا ہوں۔ مجھے باریک باریک قطرے آتے ہیں جو باہر پوری طرح نہیں آتے، لیکن نظر صاف آتے ہیں ، ان کو ٹشو کےچھوٹے چھوٹے ٹکڑوں کو سخت اور سیدھا کرکے پیشاب کے نالی میں تھوڑا اندر تک لے جاتا ہوں جو اندر قطرے موجود ہیں وہ بھی ختم ہوتے ہیں ۔ کیا یہ طریقہ صحيح ہے ؟
2۔ اور جب استنجا کرتا ہوں تو بغیر ہاتھ دھوئے ازاربند باندھتا ہوں اور باتھ روم سے نکل کر بجلی کا بٹن بند کرتا ہوں بغیر ہاتھ دھوئے اور ہاتھ جا کے کچن میں اچھی طرح پانی سے دھوتا هوں ،یعنی باتھ روم ميں ہاتھ نہیں دھوتا ، تو کیا ٹشو کے ساتھ استنجا کرکے چھوٹے پیشاب کا بغیر ہاتھ دھوئے کپڑوں کو لگانا،بورڈ کو لگانا، کچن میں نل کو لگانا صحيح ہے؟ اس سے وہ چیزیں ناپاک تو نہیں ہوتيں؟کیوں کہ استنجے کے وقت ہاتھ پر پیشاب نہیں ہوتا، بس صرف ٹشو پیپر سے استنجا کرتا ہو ں اور استنجے میں ٹشو دائیں ہاتھ سے استعمال کرتا ہوں ،کیوں کہ بائیں ہاتھ سے عضو خاص کو دباتا ہوں تاکہ قطرے نكليں مجھے 5 ،6 قطرے آتے ہیں اور بغیر ہاتھ دھوئے کپڑوں کو لگاتا ہوں، کچن میں دھوتا ہوں اور پانی سے استنجا تھوڑی دیر بعد یا پھر وضو کرنے سے پہلے کرتا ہوں، تا کہ قطرے آنے کا شک نہ ہو گیلے پن سے ،براہ کرام راہ نمائی فرمائی۔
1۔ صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے قطرے آنے کی وجہ سے سوال میں ذکر کردہ طریقے سے استنجاء کرنا درست ہے۔
2۔ دائیں ہاتھ سے بلاعذر استنجاء کرنا مکروہ ہے، لہذا اس سے اجتناب کریں، استنجاء کرنے کے بعد جب ہاتھ پر نجاست ہی نہیں لگی یا ہلکی پھلکی لگی اور ٹشو پیپر سے خشک ہوگئی تو بغیر ہاتھ دھوئے اگر وہ ہاتھ کسی چیزکو لگ جائیں تو وہ چیزیں ناپاک نہیں ہوں گی، لہذا مذکورہ صورت میں ہاتھ کپڑوں ، بورڈ، نل وغیرہ کو لگنے سے وہ چیزیں بدستور پاک رہیں گی۔
حاشیۃ الطحطاوی میں ہے:
"هو قلع النجاسة بنحو الماء ومثل القلع التقليل بنحو الحجر "يلزم الرجل الاستبراء"عبر باللازم لأنه أقوى من الواجب لفوات الصحة بفوته لا بفوت الواجب والمراد طلب براءة المخرج عن أثر الرشح "حتى يزول أثر البول" بزوال البلل الذي يظهر على الحجر بوضعه على المخرج "و" حينئذ "يطمئن قلبه" أي الرجل ولا تحتاج المرأة إلى ذلك بل تصبر قليلا ثم تستنجي واستبراء الرجل "على حسب عادته إما بالمشي أو بالتنحنح أو الاضطجاع" على شقه الأيسر "أو غيره" بنقل أقدام وركض وعصر ذكره برفق لاختلاف عادات الناس فلا يقيد بشيء "ولا يجوز" أي لا يصح "له الشروع في الوضوء حتى يطمئن بزوال رشح البول" لأن ظهور الرشح برأس السبيل مثل تقاطره يمنع صحة الوضوء."
(کتاب الطہارۃ ،فصل فی الإستنجاء،ص:43 ،ط:دار الکتب العلمية)
نور الایضاح میں ہے:
"ويسن أن يستنجى بحجر منق ونحوه والغسل بالماء احب والأفضل الجمع بين الماء والحجر فيسمح ثم يغسل ويجوز أن يقتصر على الماء أو الحجر والسنة إنقاء المحل."
(کتاب الطہارۃ، فصل فی الإستنجاء، ص:17، ط:المکتبة العصرية)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: ولو شك إلخ) في التتارخانية: من شك في إنائه أو في ثوبه أو بدن أصابته نجاسة أو لا فهو طاهر ما لم يستيقن، وكذا الآبار والحياض والجباب الموضوعة في الطرقات ويستقي منها الصغار والكبار والمسلمون والكفار؛ وكذا ما يتخذه أهل الشرك أو الجهلة من المسلمين كالسمن والخبز والأطعمة والثياب اهـ ملخصا."
(كتاب الطهارة، فرض الغسل، ج: 1 ص: 151، ط: سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144605101984
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن