مجھے چھوٹے پیشاب کی تکلیف ہے، پیشاب کرنے کے بعد کافی دیر تک ٹیشو پیپر استعمال کرنے کے باوجود چلنے پھرنے، بیٹھنے سے یا زور کا کام کرنے سے تھوڑا تھوڑا پیشاب نکل جاتا ہے، میری راہنمائی فرمائیں کہ مجھے کیا کرنا چاہیے؟
اگر آپ کو پیشاب کے قطرے آنے کی ایسی بیماری ہو کہ کسی ایک نماز کے مکمل وقت میں پاک اور باوضو ہو کر اس وقت کی فرض نماز پڑھنے کا وقت بھی اس عذر کے بغیر نہ ملے، یعنی درمیان میں اتنا وقفہ بھی نہیں ملتا کہ ایک وقت کی فرض نماز ادا کر سکیں تو آپ شرعاً معذور کہلائیں گے اور معذورین کا حکم یہ ہے کہ ہر فرض نماز کے وقت وضو کرلیا کریں اور پھر اس وضو سے اس ایک وقت میں جتنے چاہیں فرائض اور نوافل ادا کریں اور تلاوتِ قرآنِ کریم کرلیں (خواہ اس ایک وقت کے درمیان میں جتنے بھی قطرے آجائیں، دوبارہ وضو کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی بشرطیکہ وضو توڑنے والی کوئی اور چیز مثلًا: قضاءِ حاجت، جسم سے خون نکلنا وغیرہ پیش نہ آئے، ورنہ وقت کے اندر بھی وضو ٹوٹ جائے گا)بہرحال جیسے ہی اس فرض نماز کا وقت ختم ہوگا تو آپ کا وضو بھی ختم ہوجائے گا اور پھر اگلی نماز کے لیے دوبارہ وضو کرنا ہوگا۔ پھر جب تک کسی نماز کا مکمل وقت اس عذر کے (مثلًا: قطرے نکلے ) بغیر نہ گزر جائے آپ شرعًا معذور رہیں گے، اگر کسی نماز کا مکمل وقت اس عذر (قطروں) کے بغیر گزر گیا تو پھر آپ شرعی معذور نہیں رہیں گے۔
اور اگر یہ قطرے کپڑوں پر لگے ہوئے ہوں تو اس صورت میں یہ دیکھا جائے گا کہ وہ کس تسلسل سے نکل رہے ہیں؟ اگر اتنا بھی وقت نہ ملے کہ نماز کے وقت میں کپڑے پاک کرکے اس وقت کی فرض نماز پاک کپڑوں میں پڑھ سکیں، تو اس صورت میں آپ پر ان قطروں کا دھونا واجب نہ ہوگا، اگرچہ یہ قطرے مقدارِ درہم سے تجاوز کرجائیں، اور اگر آپ کو یہ گمان ہے کہ قطرے دھونے کے بعد یہ دورانِ نماز مزید نہ نکلیں گے تو اس صورت میں ان کا دھونا واجب ہوگا۔
اور اگر ان قطروں کے خارج ہونے میں مقدارِ نماز کے برابر تسلسل نہیں ہے یعنی پیشاب کے قطرے کچھ دیر آنے کے بعد بند ہوجاتے ہیں یا درمیان میں اتنا وقفہ ہوجاتا ہے کہ جس میں فرض نماز ادا کی جاسکتی ہے تو آپ شرعاً معذورین میں شامل نہیں ہوں گے، اور آپ کا وضو اِن قطروں سے ٹوٹ جائے گا اور کپڑے بھی ناپاک ہوجائیں گے اور ان کا دھونا (جب کہ وہ مقدار درہم سے تجاوز کرجائیں) واجب ہوگا۔ اس صورت میں آپ نماز سے کافی پہلے ہی پیشاب کر کے فارغ ہوجائیں اور اس کے بعد پیشاب کے قطروں کے خارج ہونے تک انتظار کریں، جب قطرے بند ہوجائیں اور آپ کو اطمینان حاصل ہوجائے تو پھر اس کے بعد وضو کرکے نماز ادا کریں۔ بہتر یہ ہوگا کہ آپ نماز کے وقت کے لیے الگ کپڑا رکھیں اور دیگر اوقات کے لیے الگ کپڑا رکھیں، پھر بھی اگر نماز کے وقت پہنے ہوئے کپڑوں میں قطرے نکل آئیں تو اس کو پاک کر لیں۔ الگ الگ کپڑوں کا انتظام مشکل ہو تو انڈرویئر میں ٹشو رکھ لیا کریں، اور نماز سے پہلے اسے نکال کر پانی سے صرف استنجا کرکے وضو کرکے نماز پڑھ لیں، اور نماز کے بعد پیشاب کرکے دوبارہ ٹشو رکھ لیا کریں، آسان طریقہ یہ ہے کہ نماز کے بعد ہی پیشاب کر نے کی عادت بنائے اور اس کے بعد انڈروئر کے اندر ٹیشورکھ لے، نماز سے پہلے ٹیشو نکال کر پھینک دے اور دھو کر نماز پڑھ لے، اور علاج جاری رکھے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"(وصاحب عذر من به سلس) بول لا يمكنه إمساكه (أو استطلاق بطن أو انفلات ريح أو استحاضة) أو بعينه رمد أو عمش أو غرب، وكذا كل ما يخرج بوجع ولو من أذن وثدي وسرة (إن استوعب عذره تمام وقت صلاة مفروضة) بأن لا يجد في جميع وقتها زمناً يتوضأ ويصلي فيه خالياً عن الحدث (ولو حكماً)؛ لأن الانقطاع اليسير ملحق بالعدم (وهذا شرط) العذر (في حق الابتداء، وفي) حق (البقاء كفى وجوده في جزء من الوقت) ولو مرةً (وفي) حق الزوال يشترط (استيعاب الانقطاع) تمام الوقت (حقيقة)؛ لأنه الانقطاع الكامل. (وحكمه الوضوء) لا غسل ثوبه ونحوه (لكل فرض) اللام للوقت كما في - {لدلوك الشمس} [الإسراء: 78]- (ثم يصلي) به (فيه فرضاً ونفلاً) فدخل الواجب بالأولى (فإذا خرج الوقت بطل) أي: ظهر حدثه السابق، حتى لو توضأ على الانقطاع ودام إلى خروجه لم يبطل بالخروج ما لم يطرأ حدث آخر أو يسيل كمسألة مسح خفه. وأفاد أنه لو توضأ بعد الطلوع ولو لعيد أو ضحى لم يبطل إلا بخروج وقت الظهر.(وإن سال على ثوبه) فوق الدرهم (جاز له أن لا يغسله إن كان لو غسله تنجس قبل الفراغ منها) أي: الصلاة (وإلا) يتنجس قبل فراغه (فلا) يجوز ترك غسله، هو المختار للفتوى، وكذا مريض لا يبسط ثوبه إلا تنجس فورا له تركه (و) المعذور (إنما تبقى طهارته في الوقت) بشرطين (إذا) توضأ لعذره و (لم يطرأ عليه حدث آخر، أما إذا) توضأ لحدث آخر وعذره منقطع ثم سال أو توضأ لعذره ثم (طرأ) عليه حدث آخر، بأن سال أحد منخريه أو جرحيه أو قرحتيه ولو من جدري ثم سال الآخر (فلا) تبقى طهارته.
(قوله: اللام للوقت) أي: فالمعنى لوقت كل صلاة، بقرينة قوله بعده فإذا خرج الوقت بطل، فلا يجب لكل صلاة خلافا للشافعي أخذا من حديث «توضئي لكل صلاة» قال في الإمداد: وفي شرح مختصر الطحاوي روى أبو حنيفة عن هشام بن عروة عن أبيه عن عائشة - رضي الله عنها - «أن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال لفاطمة بنت أبي حبيش: توضئي لوقت كل صلاة» ولا شك أنه محكم؛ لأنه لا يحتمل غيره بخلاف حديث " لكل صلاة " فإن لفظ الصلاة شاع استعماله في لسان الشرع والعرف في وقتها فوجب حمله على المحكم وتمامه فيه.
(قوله: ثم يصلي به) أي: بالوضوء فيه أي: في الوقت (قوله: فرضا) أي: أي فرض كان نهر أي: فرض الوقت أو غيره من الفوائت (قوله: بالأولى) ؛ لأنه إذا جاز له النفل وهو غير مطالب به يجوز له الواجب المطالب به بالأولى، أفاده ح، أو؛ لأنه إذا جاز له الأعلى والأدنى يجوز الأوسط بالأولى (قوله: فإذا خرج الوقت بطل) أفاد أن الوضوء إنما يبطل بخروج الوقت فقط لا بدخوله خلافا لزفر، ولا بكل منهما خلافا للثاني وتأتي ثمرة الخلاف."
(کتاب الطہارۃ، باب الحیض، مطلب فی احکام المعذور، ج:1، ص:305، ط:سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے :
"شرط ثبوت العذر ابتداءً أن یستوعب استمراره وقت الصلاة کاملاً، وهو الأظهر، کالانقطاع لایثبت مالم یستوعب الوقت کله ... وشرط بقائه أن لا يمضي عليه وقت فرض إلا والحدث الذي ابتلي به يوجد فيه هكذا في التبيين. المستحاضة ومن به سلس البول أو استطلاق البطن أو انفلات الريح أو رعاف دائم أو جرح لا يرقأ یتوضؤن لوقت کل صلاة، ویصلون بذلک الوضوء في الوقت ماشاؤا من الفرائض و النوافل … ویبطل الوضوء عند خروج وقت المفروضة بالحدث السابق … إذا کان به جرح سائل وقد شد علیه خرقةً فأصابها الدم أکثر من قدر الدرهم، أو أصاب ثوبه إن کان بحال لوغسله یتنجس ثانیاً قبل الفراغ من الصلاة، جاز أن لا یغسله وصلی قبل أن یغسله وإلا فلا، هذا هو المختار."
(كتاب الطهارة،الباب السادس، الفصل الرابع، ج:1،ص:40-41،ط:رشیدیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144606100421
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن