بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکستان میں رہتے ہوئے سعودی عرب کی رؤیتِ ہلال کا اعتبار کرنے کا حکم


سوال

چاند کی رؤیت پاکستان میں سعودی عرب کے ساتھ ہونی چاہیے یا نہیں؟

جواب

بلادِ  قریبہ میں اختلافِ  مطالع معتبر ہونے یا نہ ہونے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔(۱)  البتہ بلادِ  بعیدہ میں اختلافِ  مطالع معتبر ہونے پر ابن رشد نے اجماع نقل کیا ہے۔  ( ۲) اب بلادِ  بعیدہ کی تعیین میں اقوال مختلف ہیں، علامہ شامی نے لکھا ہے کہ: بعض فقہاء فرماتےہیں: ایک مہینہ کی مسافت پر مطلع بدل جاتا ہے، اور فقہاء کی تصریحات کے مطابق تین دن کا سفر ۴۸ میل بنتا ہے تو اس کے حساب سے چارسو اسی میل کی مسافت پر مطلع تبدیل ہوگا۔ دوسرا قول یہ لکھا ہے کہ: چوبیس فرسخ پر مطلع بدل جائے گا۔ (۳) اور معارف السنن میں حضرت بنوری رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ ہر پانچ سو میل کی مسافت پر مطلع بدل جاتا ہے۔ (۴) 

نیز   کسی علاقے میں کوئی قاضی یا حکومت کی طرف سے مقرر کردہ  کمیٹی پورے  ضلع یا صوبے  یا پورے ملک  کے لیے ہو  اور وہ شرعی شہادت  موصول ہونے پر  چاند نظر آنے کا اعلان کردے تو اس کے فیصلے پر اپنی حدود اور ولایت میں  ان لوگوں پرجن تک فیصلہ اور اعلان یقینی اور معتبر ذریعے سے پہنچ جائے  عمل  کرنا واجب ہوگا،  چوں کہ  مرکزی رؤیت ہلال کمیٹی  قاضی شرعی کی  حیثیت    رکھتی ہے، لہذا شہادت موصول ہونے پر اگر وہ اعلان کردے تو ملک میں  جن لوگوں تک یہ اعلان    معتبر ذرائع سے پہنچ جائے، ان پر روزہ رکھنا یا عید کرنا لازم ہوگا۔

لہٰذا پاکستان اور سعودی عرب میں جب پانچ سو میل سے بہت زیادہ فاصلہ ہے، اور یہ بلاد بعیدہ ہیں، نیز پاکستان میں چاند کی رؤیت کے لیے باقاعدہ رؤیت ہلال کمیٹی موجود ہے جو باقاعدہ چاند دیکھ کر رمضان اور عید وغیرہ کا اعلان کرتی ہے اس لیے پاکستان میں چاند کی رؤیت کے لیے سعودی عرب کی رؤیت کا اعتبار کرنا درست نہیں ہے۔

حوالہ جات:

1: _شامی، ج: ۲، ص: ۳۹۳ 

2:_ بدائع، ج: ۲، ص: ۸۳،  بحر، ج: ۲، ص: ۲۶۷ تا ۲۷۰، معارف السنن ، ج: ۵، ص: ۳۳۷

3:_شامی ، کتاب الصوم، ج: ۲، ص: ۳۹۳

4:_ج: ۵، ص: ۴۴۰

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں