بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 ذو الحجة 1445ھ 02 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

پاکستان سے دبئی ہنڈی کے ذریعہ دراہم کی ترسیل (Transfer) کا شرعی حکم


سوال

میں یہاں سے دبئی جو درہم بھیج رہا ہوں اس کا یہاں کا ریٹ دبئی میں 61.90 چل رہا ہے، جب کہ اگر میں یہی درہم پاکستان بھیج کر کنورٹ کر واؤں تو اس کی ادائیگی مجھے 68.50 میں مل رہی ہے اور اگر میں ہنڈی دبئی سے بھیجواؤں تو وہ اپنی بیڈ ریٹ 67 کا ڈال رہے ہیں، کیا کرنا جائز ہے؟ کیوں کہ ایک جگہ نفع ہے ، اگر کسی کے ہاتھوں بھیجوں تو، لیکن کوئی ہے نہیں جانے والا، درہم ہنڈی سے بھیجوں تو کیا جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ   ہنڈی کا کاروبار  ملکی و بین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے؛  پکڑے جانے کی صورت میں  جان و مال کے  نقصان کا خطرہ ہوتا ہے، اس لیے رقم کی ترسیل کے لیے  قانونی راستہ  اختیار کرنا بہتر ہے، البتہ ہنڈی سے رقم کی ترسیل درج ذیل تفصیل کے مطابق انجام  پائی ہو تو  شرعاً جائز ہے:

1)مروجہ ہنڈی (حوالہ) کی حیثیت چوں کہ قرض کی ہے؛ اس لیے جتنی رقم دی جائے اتنی ہی رقم آگے پہنچانا ضروری ہوگا، اس میں کمی بیشی جائز نہیں ہوگی، البتہ بطورِاجرت (یعنی فیس)  الگ سے طے شدہ اضافی رقم لی جاسکتی ہے۔

 2)کرنسیوں کے مختلف ہونے کی صورت میں شرعاً یہ  لازم ہوگا کہ  جس ملک سے کرنسی بھیجی جا رہی ہے یا جس ملک  میں  ادائیگی کرنی ہےان دونوں ملکوں میں سے کسی ایک  ملک کی کرنسی کی مارکیٹ میں جو قیمت ہوگی اس قیمت کے اعتبار سے قیمت متعین کرنا ضروری ہے تا کہ بعدمیں جھگڑا نہ ہو ۔ 

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :

"ويتم التعبير عن هذا القرض بتسليم المقرض وصلا (وثيقة) يثبت حقه في بدل القرض، ويكون المقترض وهو الصراف أو البنك ضامنا لبدل القرض، ولكنه يأخذ أجرا أو عمولة على تسليم المبلغ في بلد آخر مقابل مصاريف الشيك أوأجرة البريد أو البرقية ‌أو ‌التلكس ‌فقط، لتكليف وكيل الصراف بالوفاء أو السداد.وهذان العقدان: الصرف والتحويل القائم على القرض هما الطريقان لتصحيح هذا التعامل، فيما يبدو لي، والله أعلم".

(الحوالة البریدیة: ج:5،ص:331 ط:دارالفکر)

السنن الکبری للبیہقی میں ہے:

"عن عطاء بن أبي رباح أن عبد الله بن الزبير كان يأخذ من قوم بمكة دراهم ، ‌ثم ‌يكتب بها إلى مصعب بن الزبير بالعراق فيأخذونها منه ، فسئل ابن عباس عن ذلك فلم ير به بأسا ، فقيل له: إن أخذوا أفضل من دراهمهم، قال: " لا بأس إذا أخذوا بوزن دراهمهم."

(کتاب البیوع، باب ماجاء فی السفاتیج، ج:5، ص:576، ط:دار الکتب العلمیة)

"تنقیح الفتاوی الحامدیة" میں ہے:

"الدیون تقضیٰ بأمثالها".

(کتاب البیوع، باب القرض: ج:1 ، ص: 500، ط: قديمي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"و في الأشباه: کل قرض جر نفعاً حرام".

( کتاب البیوع، فصل فی القرض:ج:  5 ، ص:166، ط: سعید)

وفیه أیضاً:

"وفي شرح الجواهر: تجب ‌إطاعته فيما أباحه الشرع، وهو ما يعود نفعه على العامة، وقد نصوا في الجهاد على امتثال أمره في غير معصية."

(كتاب الأشربة، ج:6، ص:460، ط:سعيد)

احكام القرآن للعلامۃ ظفر احمد عثمانيؒ میں ہے:

"وهذا الحكم أي وجوب طاعة الأمير يختص بما إذا لم يخالف أمره الشرع، يدل عليه سياق الآية فإن الله تعالي أمر الناس بطاعة أولي الأمر بعد ما أمرهم بالعدل، في الحكم تنبيها علي أن طاعتهم واجبة ماداموا علي العمل."

(طاعة الأمير فيما لايخالف الشرع، النساء: ص:292، ط: إدارة القرآن)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله ‌يعزر) لأن طاعة أمر السلطان بمباح."

( كتاب البيوع، باب المراحبة و التولية، فصل في القرض، مطلب كل قرض جر نفعا حرام، ج:5، ص:167، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406101285

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں