کچھ لوگ پاکستان میں بیٹھ کر چائنہ سے خریداری کرتے ہیں، ان کو سامان کی قیمت ڈالرز یا چائنہ کرنسی (RMB) میں دینی پڑتی ہے، اب میں چائنہ کرنسی کا کام کرتا ہوں، لیکن میرے پاس وہ کرنسی (RMB) موجود نہیں ہوتی، میں اپنے ایک دوست سے خرید کر آگے لوگوں کے دیئے ہوئے اکاؤنٹ نمبر میں (RMB) ٹرانسفر کرواتا ہوں، جن لوگوں نے چائنہ کرنسی (RMB) میں پیمنٹ کروانی ہوتی ہے، وہ مجھ سے (RMB)کا ریٹ پوچھتے ہیں، میں اپنے دوست سے اس کا ریٹ پوچھتا ہوں، پھر اس میں دس، بیس یا تیس پیسے کا اضافہ کرکے اس کو آگے فروخت کرتا ہوں، مثال کے طور پر اگر ایک (RMB)10.5کا ہے تو میں آگے10.7روپے کا دیتاہوں، پھر وہ لوگ میرے پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کرتے ہیں، پھر میں آگے اپنے دوست کے پاکستانی بینک اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کرتا ہوں، پھر اس کے بعد وہ لوگ ہمیں چائنہ کمپنی کا بینک اکاؤنٹ بھیجتے ہیں، پھر میرا دوست چائنہ میں بیٹھے ہوئے کسی بندے سے اس اکاؤنٹ میں پیسے ٹرانسفر کروادیتاہے، اب سوال یہ ہے کیا یہ طریقہ درست ہے؟
کیا پیسوں میں بھی یہ ضروری ہوتا ہے کہ پہلے قبضہ کیا جائے، پھر آگے اسے فروخت کیا جائے؟
کیا کرنسی کو کرنسی کے بدلے فروخت کرنا جائز ہے؟کیا یہ سود کے زمرےمیں آئے گا؟
واضح رہے کہ کرنسی خواہ کسی بھی ملک کی ہو، اس کےلین دین، خرید و فروخت کو بیع صرف کہتے ہیں اور اس میں ایک ہی مجلس میں عاقدین کی جانب سے تبادلہ کرناور قبضہ کرنا شرعًا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں پاکستانی کرنسی کے بدلے چائنیز کرنسی کا لین دین ایک ہی مجلس میں دونوں جانب سے قبضہ کے بغیر کرنا جائز نہیں، البتہ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر سودا نقد ہے تو کسی شخص کو اس بات کا وکیل بنادے کہ وہ اسی مجلس میں کرنسی پر قبضہ کرلےگا، تو معاملہ صحیح ہوجائےگا اور پھر وہ وکیل اپنے مؤکل کو حسبِ سہولت کرنسی پہنچادے اور اگر سودا ادھار ہے تو کرنسی کو بطورِقرض لے اور جب اس کی ادائیگی کرے تو اتنی کرنسی ادا کردے یا اس وقت اس کرنسی کی جو پاکستانی قیمت بنے وہ ادا کرے، یا اس وقت چائنہ کرنسی کی مارکیٹ میں جو قیمت ہو گی اس کے حساب سے پاکستانی کرنسی ادا کر دے تو بھی صحیح ہو گا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح، و) العوضان (لا يتعينان) ۔۔۔۔(ويفسد) الصرف (بخيار الشرط والأجل) لإخلالهما بالقبض".
"(قوله: لحرمة النساء) بالفتح أي التأخير فإنه يحرم بإحدى علتي الربا: أي القدر أو الجنس كما مر في بابه."
(كتاب البيوع، باب الصرف، ج:5، ص:259، ط: دارالفکر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"إن وجد التقابض وهو القبض من الجانبين قبل التفرق بالأبدان تم الصرف والبيع جميعا، وإن لم يوجد أو وجد القبض من أحد الجانبين دون الآخر بطل الصرف لوجود الافتراق من غير قبض."
(کتاب البیوع، فصل في شرائط الصرف، ج:5، ص:217، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144608102211
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن