ہمارا چائنہ سے امپورٹ کا کام ہے، ہم وہاں سے مال خریدتے ہیں اور یہاں بیچتے ہیں اور چائنہ میں رقم کی ادائیگی چائنیز کرنسی کی صورت میں ہوتی ہے، اس کا طریقہ کار اس طرح ہے کہ ہم یہاں موجود پاکستانی شخص سے بذریعہ حوالہ چائنیز کرنسی چائنہ ٹرانسفر کرواتے ہیں اور اسے اس کے عوض پاکستانی کرنسی دیتے ہیں، اس کی صورت یہ ہے کہ مثال کے طور پر چائنیز کرنسی کا حکومتی ریٹ 38 روپے کا ایک یان(چائنیز کرنسی) ہے اور ہم جس سے خرید کر حوالہ کرواتے ہیں، اس کا کیش میں لین دین کا ریٹ 40 روپے اور ادھار کا ریٹ 41 روپے ہے اور دونوں ہی صورتوں میں ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں طے شدہ رقم میں ریٹ کے حساب سے کسی قسم کی کمی زیادتی نہیں ہوتی، بل کہ جس ریٹ پر سودا ہوا ہے، اس کے حساب سے جو پاکستانی روپے بنتے ہیں وہی ادا کرنے ہوتےہیں۔ادھار کی صورت میں چائنیز کرنسی پر اسی مجلس میں چائنیز پارٹی چائنہ میں قبضہ کرلیتی ہے اور ہم یہاں مہینے بعد پاکستانی روپےادا کرتے ہیں۔
2۔بلڈنگ میں ہر نئے آنے والے کرایہ دار اور خریدار سے انٹری فیس لی جاتی ہے، جو کہ شرعی رو سے ناجائز ہے، اب سوال یہ ہے کہ ہماری بلڈنگ میں انٹری فیس کو ختم کردیا گیا ہے، لیکن جو سابقہ انٹری فیس کی رقم تھی وہ خرچ ہوچکی ہے، اب اس کی ادائیگی کی کیا صورت ہے؟آیا ادائیگی لازم نہیں یا لازم ہے؟ا ور اگرادائیگی کرنا ضروری ہے تو وہ حضرات جنہوں نے انٹری فیس ادا کی تھی اور اب وہ بلڈنگ سے چلے گئے ہیں اور ان سے کوئی رابطہ بھی نہیں تو ان کو کس طرح ادا کیا جائے یا ان کی رقم کو صدقہ کردیا جائے؟
1۔واضح رہے کہ کرنسی خواہ کسی بھی ملک کی ہو، اس کےلین دین، خرید و فروخت کو بیع صرف کہتے ہیں اور اس میں ایک ہی مجلس میں عاقدین کی جانب سے تبادلہ کرناور قبضہ کرنا شرعًا ضروری ہوتا ہے، لہٰذا صورتِ مسئولہ میں پاکستانی کرنسی کے بدلے چائنیز کرنسی کا لین دین ایک ہی مجلس میں دونوں جانب سے قبضہ کے بغیر کرنا جائز نہیں، البتہ اس کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اگر سودا نقد ہے تو کسی شخص کو اس بات کا وکیل بنادے کہ وہ اسی مجلس میں کرنسی پر قبضہ کرلےگا، تو معاملہ صحیح ہوجائےگا اور پھر وہ وکیل اپنے مؤکل کو حسبِ سہولت کرنسی پہنچادے اور اگر سودا ادھار ہے تو کرنسی کو بطورِقرض لے اور جب اس کی ادائیگی کرے تو اتنی کرنسی ادا کردے یا اس وقت اس کرنسی کی جو پاکستانی قیمت بنے وہ ادا کرے، یا اس وقت چائنہ کرنسی کی مارکیٹ میں جو قیمت ہو گی اس کے حساب سے پاکستانی کرنسی ادا کر دے تو بھی صحیح ہو گا۔
نیز یہ بھی ملحوظ رہے کہ حوالہ ( ہنڈی ) کا کاروبار ملکی(یعنی پاکستانی) وبین الاقوامی قوانین کی رو سے ممنوع ہے، اس لیے رقم کی ترسیل کے لیے جائز اور قانونی راستہ ہی اختیار کرنا چاہیے۔
2۔بلڈنگ والوں پر لازم ہے کہ اس رقم کے اصل مالکان کو حتی الامکان تلاش کرکے انہیں ان کی رقم حوالے کرے؛کیوں کہ ویسے بھی موجودہ زمانہ میں کسی کو ڈھونڈنا یا کسی سے رابطہ کرنابہت زیادہ آسان ہے، لیکن اگر اس کا پتا نہ چلے تو اس شخص کے ورثاء کو تلاش کرکے وہ امانت ان کے حوالے کردی جائے، اگر ان میں سے کوئی صورت بھی ممکن نہ ہو تو اس رقم کو فقراء میں مالک کی طرف سے صدقہ کر دے، تاہم یاد رہےکہ یہ حقوق العباد کا معاملہ ہے، مالک جب بھی ملے گا تو اس کو لوٹانا یا پھر معاف کروانا لازم ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(وإلا) بأن لم يتجانسا (شرط التقابض) لحرمة النساء (فلو باع) النقدين (أحدهما بالآخر جزافا أو بفضل وتقابضا فيه) أي المجلس (صح، و) العوضان (لا يتعينان) ۔۔۔۔(ويفسد) الصرف (بخيار الشرط والأجل) لإخلالهما بالقبض".
"(قوله: لحرمة النساء) بالفتح أي التأخير فإنه يحرم بإحدى علتي الربا: أي القدر أو الجنس كما مر في بابه".
(كتاب البيوع، باب الصرف، ج:5، ص:259، ط: سعيد)
درر الحکام فی شرح مجلۃ الأحکام میں ہے:
"لا يجوز لأحد أن يأخذ مال أحد بلا سبب شرعي هذه القاعدة مأخوذة من المجامع وقد ورد في الحديث الشريف «لا يحل لأحد أن يأخذ متاع أخيه لاعبا ولا جادا فإن أخذه فليرده".
(المقالة الثانية في بيان القواعد الكلية الفقهية، الماده: 97، ج:1، ص:98، ط: دار الجيل)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144607100702
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن