بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

مشینوں میں گزارے ہوئے پانی سے وضو کا حکم


سوال

ایک سرکاری ادارے میں نوکری کر رہا ہو ں، اس ادارے میں پانی کو انڈسٹری کے مختلف پراسس کیلۓ استعمال کیا جاتا ہے ،اور  پانی کو مختلف جگہوں پر پہنچانے کیلۓ بڑے موٹر پمپ لگے ہیں ،ان موٹر پمپ کے اندر سیل لگی ہوتی ہے ،اوان سیل کے اندر سے صاف پانی گزارا جاتا ہے ،جو کہ پمپ کے اندر لگے شافٹ بئرنگ وغیرہ کو گرم نہیں ھونے دیتا اور ان سیلوں سے پانی گزر کر ایک بڑی پائپ لائن میں مسلسل آتا رہتا ہے ،اور اس پانی کا ذائقہ بھی تبدیل ہو جاتا ہے ،یعنی کہ پانی میں کڑوا پن آجاتا ہے،آپ سے پوچھنا تھا کیا اس پانی سے وضو کیا جا سکتا ہے؟

جواب

 واضح رہے کہ   اگر    پانی کا  ذائقہ     کسی پاک شے ملنےکی وجہ سے   تبدیل  ہو جائے،  تو اس سے   پانی ناپاک نہیں ہو تا،اور     نیز یہ  کہ  (سیل) جو مشین میں لگے ہوتے  ہیں پاک ہوتے  ہیں تو اس   سیل  سے پانی  گزر کر  آنے سے ذائقے  میں کچھ تبدیلی  بھی آجائے تو پانی ناپاک  نہیں ہو گا، لہذا  سائل   مذکورہ بالا  پانی سے وضوکر سکتا ہے۔

 فتاوی شامی میں ہے:

"(يرفع الحدث) مطلقا (بماء مطلق) هو ما يتبادر عند الإطلاق (كماء سماء وأودية وعيون وآبار وبحار وثلج مذاب) بحيث يتقاطر وبرد وجمد وندا، هذا تقسيم باعتبار ما يشاهد وإلا فالكل من السماء {ألم تر أن الله أنزل من السماء ماء} [الحج: 63] الآية. "

(الفتاوی شامي، باب المیاہ ج:1 ص:179 ط: سعید)

البنایۃ  فی شرح الھدایۃ میں ہے:

"[باب في الماء الذي يجوز به الوضوء وما لا يجوز]

م: (باب في الماء الذي يجوز به الوضوء وما لا يجوز) ش: أي هذا باب في بيان أحكام الماء الذي يجوز به الوضوء وفي بيان الماء الذي لا يجوز به الوضوء أيضا

وقوله الطهارة: مبتدأ وخبره قوله: م: (جائزة بماء السماء) ش: وهو المطر والثلج والبرد إذا ذابا، وقوله: م: (والأودية) ش: عطف عليه وهو جمع وادي أي وماء الأودية وهو الماء الذي يجتمع فيها من الأمطار والسيول التي تتحصل بها م: (والعيون) ش: جمع عين وهي التي تنبع من الأرض وتخرج إلى ظاهرها م: (والآبار والبحار) ش: جمع بئر أصله بهمزة ساكنة في وسطها، وجمعها في القلة أبئر وآبار بهمز بعد الباء، ومن العرب من يقلب الهمزة فيكون أبار، فإذا كثرت فهي أبيار.

وأما البحار جمع بحر قال الجوهري: البحر خلاف البر، يقال: سمي به لعمقه واتساعهلقوله تعالى: {وأنزلنا من السماء ماء طهورا} [الفرقان: 48] (الفرقان: الآية 48) وقوله - عليه السلام -: «الماء طهور لا ينجسه شيء إلا ما غير طعمه أو لونه أو ريحه."

(البنایة في شرح الھدایة، کتاب الطھارة، باب فی الماء الذی یجوز به الوضوء وما لا یجوز،  ج:1  ص:353  ط:دار الکتب العلمیة) 

 فتاوی ھندیۃ میں ہے:

"ولو توضأ بماء السيل يجوز وإن خالطه التراب إذا كان الماء غالبا رقيقا فراتا أو أجاجا وإن كان ثخينا كالطين لا يجوز به التوضؤ.

 وكذا التوضؤ بالماء الذي ألقي فيه الحمص أو الباقلاء ليبتل وتغير لونه وطعمه ولكن لم تذهب رقته ولو طبخ فيه الحمص أو الباقلاء وريح الباقلاء يوجد فيه لا يجوز به التوضؤ. كذا في فتاوى قاضي خان."

(الفتاوی الھندیة، کتاب الطھارۃ، الباب الثالث في المیاہ، الفصل الثانی في ما لا یجوز به التوضوء  ج:1  ص:21   ط:رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100828

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں