بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

پانی سے استنجاء کرنا کب ضروری ہے؟


سوال

(۱) اسلام میں پانی سے استنجاء کی کیا حیثیت ہے؟ یعنی  اگر پیشاب کیا ہے اور ڈھیلے سے صاف کیا ہے،  اب کچھ دیر بعد نماز کا وقت ہوا تو صرف پانی سے وضو کرکے نماز پڑھے تو کیا نماز ہو جائے  گی؟

(۲) دوسرا یہ کہ کیا جانور ذبح کرنے کے لیے استنجاء اور وضو یا ان دونوں میں سے کوئی ایک ضروری ہے؟

جواب

(۱) صورتِ مسئولہ میں اگر پیشاب  اپنے مکان سے تجاوز کر کے ایک درہم کی مقدار پھیلا نہ ہو تو پھر ٹشو یا پتھر یا ڈھیلے سے  استنجا  کر کے صاف کرنا  کافی ہوجائے گا، اس کے بعد صرف وضو کرکے نماز پڑھنا جائز ہوگا، دوبارہ پانی سے استنجاء کرنا ضروری نہیں،  البتہ ٹشو پیپر یا ڈھیلے سے صاف کرنے کے بعد  پانی  بھی استعمال کرلینا افضل ہے۔

اور اگر پیشاب اپنے مقام سے  ایک درہم کے بقدر اطراف میں  تجاوز کر چکا ہو تو  پھر اس کو پانی سے دھونا ضروری ہے ، پتھر ،ڈھیلے یا ٹشو سے استنجا  کرنا کافی نہیں ہوگا، اور وضوکرنے سے پہلے پانی سے استنجاء کرنا ضروری ہوگا۔

(۲) جانور ذبح کرنے کےلیے استنجاءیا وضو میں سے کوئی بھی چیز ضروری نہیں ہے، البتہ باوضو ہوکر ذبح کرنا باعثِ برکت ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"و الاستنجاء بالماء أفضل إن أمكنه ذلك من غير كشف العورة وإن احتاج إلى كشف العورة يستنجي بالحجر و لايستنجي بالماء، كذا في فتاوى قاضي خان. و الأفضل أن يجمع بينهما، كذا في التبيين. قيل: هو سنة في زماننا، و قيل: على الإطلاق، و هو الصحيح، و عليه الفتوى، كذا في السراج الوهاج.ثم الاستنجاء بالأحجار إنما يجوز إذا اقتصرت النجاسة على موضع الحدث، فأما إذا تعدت موضعها بأن جاوزت الشرج أجمعوا على أن ما جاوز موضع الشرج من النجاسة إذا كانت أكثر من قدر الدرهم يفترض غسلها بالماء و لايكفيها الإزالة بالأحجار، و كذلك إذا أصاب طرف الإحليل من البول أكثر من قدر الدرهم يجب غسله، و إن كان ما جاوز موضع الشرج أقل من قدر الدرهم أو قدر الدرهم إلا أنه إذا ضم إليه موضع الشرج كان أكثر من قدر الدرهم فأزالها بالحجر و لم يغسلها بالماء يجوز عند أبي حنيفة و أبي يوسف رحمهما الله تعالى و لايكره، كذا في الذخيرة، وهو الصحيح، كذا في الزاد."

(کتاب الطہارۃ، باب سابع، فصل فی الاستنجاء، ج:1، ص:48، ط:دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144607100599

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں