بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

پردیسی شخص کے لیے قربانی کا حکم


سوال

جس بندے پہ قربانی واجب ہو نصاب کے بقدر نقد روپے یا مال موجود ہو لیکن بندہ خود پردیس میں ہو، اور مال یا پیسے وغیرہ اپنے وطن میں ہوں، اور گھر میں کوئی ایسا فرد موجود نہ ہو جو اس کی قربانی کر سکے تو پھر وہ بندہ کیا کرے گا؟

جواب

واضح رہےکہ  قربانی ہر اُس عاقل ، بالغ ، مقیم، مسلمان، مرد اور عورت پر واجب ہے جو   عید الاضحٰی کے ایام میں نصاب کا مالک  ہو۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں پردیس میں مقیم شخص صاحبِ نصاب ہے تو  اس  پر قربانی کرنا واجب ہے،اب اگر جہاں رہائش پذیر ہے وہاں قربانی  کی ترتیب بن سکے تو  وہاں قربانی کرے،  ورنہ اپنے وطن میں قربانی کرنے کی ترتیب بنائے،گھر کے افراد میں اگر کوئی ایسا شخص نہ ہو جو اس کی طرف سے قربانی کرسکے تو کسی جگہ اجتماعی قربانی میں ایک حصہ لےکر شریک ہوجائے۔

بہرِ صورت مقیم اور مالدار  ہونے کی صورت میں اس پر قربانی کرنا واجب ہے۔ 

تنویر الابصار  مع الدر المختار میں ہے :

"و شرائطها: الإسلام و الإقامة و اليسار الذي يتعلق به) وجوب (صدقة الفطر) كما مر."

رد المحتار میں ہے :

"(قوله: والإقامة) فالمسافر لا تجب عليه وإن تطوع بها أجزأته عنها وهذا إذا سافر قبل الشراء، فإن المشتري شاة لها ثم سافر ففي المنتقى أنه يبيعها ولا يضحي بها أي لا يجب عليه ذلك، وكذا روي عن محمد. ومن المشايخ من فصل فقال: إن كان موسرا لا يجب عليه وإلا ينبغي أن يجب عليه ولا تسقط بسفره، وإن سافر بعد دخول الوقت قالوا ينبغي أن يكون الجواب كذلك اهـ ط عن الهندية ومثله في البدائع."

(‌‌كتاب الأضحية ، ج : 6 ، ص : 312 ، ط : سعید)

البحر الرائق میں ہے :

"ولها شرائط وجوب وشرائط أداء وصفة فالأول كونه مقيما موسرا من أهل الأمصار والقرى والبوادي والإسلام شرط."

(‌‌كتاب الأضحية  ، ج : 8 ، ص : 197 ، ط : دار الكتاب الإسلامي)

بدائع الصنائع میں  ہے :

"(ومنها) ‌أنه ‌تجزئ ‌فيها ‌النيابة ‌فيجوز للإنسان أن يضحي بنفسه وبغيره بإذنه؛ لأنها قربة تتعلق بالمال فتجزئ فيها النيابة كأداء الزكاة وصدقة الفطر؛ ولأن كل أحد لا يقدر على مباشرة الذبح بنفسه خصوصا النساء، فلو لم تجز الاستنابة لأدى إلى الحرج."

(كتاب التضحية ، فصل في أنواع كيفية الوجوب ، ج : 6 ، ص : 291 ، ط : دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144511102762

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں