1. کیا عورتیں دعوتوں اور شادیوں وغیرہ میں برقعہ کے بغیر صرف چہرے کا کپڑا پہن کر نقاب کے ساتھ جا سکتی ہیں یا نہیں؟
2. اگر گھر میں دعوت ہو تو کیا حکم ہے؟
3. اور آج کل جو نقاب چل رہا ہے جس میں بھنویں اور ماتھا نظر آتا ہے، وہ پہننا جائز ہے یا نہیں؟
4. مختلف رنگوں کے نقاب لگانا جائز ہے یا نہیں؟
1. ضرورت کے تحت جب عورت کو گھر سے باہر جانا پڑے تو اس وقت کسی برقع یالمبی چادر کو سر سے پیر تک اوڑھ کر نکلنا ضروری ہے، جس کاحکم (یُدْنِیْنَ عَلَیْهِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِهِنَّ )[الاحزاب:۵۹] ( ترجمہ :سر سے نیچے کرلیا کریں اپنی ٹھوڑی سے اپنی چادریں) میں دیا گیا ہے، مطلب یہ کہ سر سے پاؤں تک عورت اس میں لپٹی ہو اور چہرہ اور ناک بھی اس میں مستور ہو، صرف ایک آنکھ راستہ دیکھنے کے لیے کھلی ہو، اگر برقعہ کے بغیر بڑی چادر سے یہ پردہ حاصل ہو جاتا ہے تو عورت اس طرح گھر سے نکل سکتی ہے، لیکن اگر وہ لمبی چادر بھی نہ ہو اور صرف چہرے پر نقاب لگایا ہو اور باقی بدن پر چادر نہ ہو ایسی صورت اختیار کرنا منع ہے۔
2. گھر میں دعوت ہونے کی صورت میں اگر نامحرم مرد بھی دعوت میں شریک ہوں تو مردوں اور عورتوں کے اختلاط سے بچنا نہایت ضروری ہے، دونوں کے بیٹھنے اور کھانے کی جگہ جدا ہونی چاہیے، بہرحال! گھر میں دعوت ہونے کی صورت میں بھی عورت کے لیے پردے کا اہتمام ضروری ہے۔
اگر اپنے گھر میں دعوت ہے تو ذکر کردہ ترتیب کے مطابق دعوت کا نظم بنایا جائے اور اگر کسی دوسرے کے گھر میں ہو اور مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہو تو ایسی دعوت میں شرکت ہی نہیں کرنی چاہیے، لیکن اگر شرکت کرنی ہی ہو تو غیر محرم مردوں سے پردہ کرنا ضروری ہوگا ۔
3.جس برقعہ میں دونوں آنکھیں اور ماتھا نظر آتا ہو ایسا برقعہ پہننے کی اجازت نہیں، فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق برقعہ درج ذیل شرائط پرپورا اترنا چاہیے،تبھی اس سے پردے کا مقصدحاصل ہوگا ورنہ نہیں:
۱- برقعہ سادہ ہو، اس میں نقش ونگار اور زیب وزینت نہ ہو،اور نہ ہی ایسا رنگ ہو جو جاذبِ نظر ہونے کی وجہ سے مردوں کی توجہ کا سبب بنے۔
۲- برقعہ چست نہ ہو کہ اس سے جسم کی ہیئت اور نشیب وفراز ظاہر ہو؛ بلکہ ڈھیلا ڈھالا ہو، جس سے جسم نمایاں نہ ہوتا ہو۔
۳- برقعہ باریک نہ ہو، جس سے جسم یا جسمانی ساخت ظاہر ہو۔
۴- برقعہ اس قدر بڑا ہو جس میں جسم اچھی طرح چھپ جائے۔
۵- برقعہ مردوں کے لباس کے مشابہ نہ ہو، اسی طرح کافروں یا دین بیزار عورتوں کے فیشنی برقعہ کے مشابہ بھی نہ ہو؛ کیوں کہ ان لوگوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔
۶- برقعہ پرمہکنے والی خوشبو بھی نہ لگائی جائے، جو مردوں کے لیے فتنے کا سبب بنے۔
4. تیسرے جزء میں جہاں برقعہ کی شرائط کا ذکر ہوا وہاں یہ بات بھی لکھ دی گئی کہ برقعہ کا ایسا رنگ نہ ہونا چاہیے جس کی طرف مردوں کی نظریں اٹھتی ہوں، تاہم اگر ایسا کوئی سنجیدہ رنگ ہے جو جاذبِ نظر نہ ہو تو اس کی اجازت ہو گی، نقاب سے متعلق بھی یہی حکم ہے۔
صحیح مسلم میں ہے:
"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «صنفان من أهل النار لم أرهما: قوم معهم سياط كأذناب البقر يضربون بها الناس، ونساء كاسيات عاريات، مميلات مائلات، رءوسهن كأسنمة البخت المائلة، لا يدخلن الجنة ولا يجدن ريحها، وإن ريحها ليوجد من مسيرة كذا وكذا»."
(كتاب اللباس والزينة، باب النساء الكاسيات العاريات المائلات المميلات، ج: 6، ص: 168، رقم: 2128، ط: دار الطباعة العامرة )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: دو گروہایسے ہیں جو جہنم میں جائیں گے، جن کو میں نے نہیں دیکھا : اول وہ لوگ جو کوڑے لے کر لوگوں کو مارتے ہوں گے، ان کے کوڑے گائے کی دم کی طرح ہوں گے۔ دوسری وہ عورتیں جو لباس پہن کر بھی برہنہ ہوں گی، دوسروں کو اپنی طرف مائل کریں گی اور خود بھی مائل ہوں گی، ان کے سر اونٹ کی کوہان کی طرح ہوں گے۔
یہ عورتیں جنت میں داخل نہیں ہوں گی اور اس کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکیں گی، حالانکہ جنت کی خوشبو بہت دور سے محسوس کی جا سکتی ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وإن كان على المرأة ثياب فلا بأس بأن يتأمل جسدها وهذا إذا لم تكن ثيابها ملتزقة بها بحيث تصف ما تحتها، ولم يكن رقيقا بحيث يصف ما تحته، فإن كانت بخلاف ذلك فينبغي له أن يغض بصره اهـ. وفي التبيين قالوا: ولا بأس بالتأمل في جسدها وعليها ثياب ما لم يكن ثوب يبين حجمها، فلا ينظر إليه حينئذ... أقول: مفاده أن رؤية الثوب بحيث يصف حجم العضو ممنوعة ولو كثيفا لا ترى البشرة منه."
(كتاب الحظر والإباحة، فصل في النظر والمس، ج: 6، ص: 366،365، ط: سعيد)
معارف القرآن میں حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں ہے:
" امام جصاصؒ نے فرمایا کہ جب زیور کی آواز تک کو قرآن نے اظہارِ زینت میں داخل قرار دے کر ممنوع کیا ہے ، تو مزین رنگوں کے برقعے پہن کر نکلنا بدرجہ اولی ممنوع ہوگا ۔"
(سورۃ النور، ج: 6، ص: 406، ط: ادارۃ المعارف کراچی)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"سوال:آج کل فیشنی مروجہ برقعہ جو ریشمی ہوتا ہے اور بدن سے چمٹا کر سیا جاتا ہے، ایسے برقعہ کا استعمال کرنا کیسا ہے؟
جواب:
"عورت کو اگر کسی ضرورت سے مکان سے باہر جانا ہی پڑے تو میلی کچیلی چادر اوڑھ کر اس طرح جائے کہ جسم پر بھی کسی کی نظر نہ پڑے اور لباس بھی جاذب نظر نہ ہو، فیشنی برقعہ جس کا سائل نے ذکر کیا ہے، خودمستقل جاذب نظر ہوتا ہے، حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ جو عورت مہکتی ہوئی خوشبو لگا کر مکان سے نکلتی ہے، وہ ایسی ایسی ہے، یعنی لوگوں کو بدکاری کی دعوت دیتی ہے، یہی حال قریب قریب فیشنی برقعہ کا ہے، لہذا اس سے اجتناب چاہیے، ایسا لباس استعمال کرنا جس سے بدن کی پوری ہیئت ظاہر ہوتی ہو، ہرگز جائز نہیں۔"
(باب الحجاب، ج: 24، ص: 335، ط: دار الافتاء جامعہ فاروقیہ)
مولانا محمد ادریس کاندہلوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے’’وَقَرْنَ فِيْ بُیُوْتِکُنَّ‘‘کے تحت لکھا ہے:
"عورت کو اپنی یہ زینتِ ظاہرہ (چہرہ اور دونوں ہاتھ ) صرف محارم کے سامنے کھلا رکھنے کی اجازت ہے، نامحرموں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں، عورتوں کو اس بات کی ہرگز ہرگز اجازت نہیں کہ وہ سربازار چہرہ کھول کر اپنا حسن وجمال دکھلاتی پھریں، حسن وجمال کا تمام دارومدار چہرہ پر ہے اور اصل فریفتگی چہرے پر ہی ختم ہے، اس لیے شریعتِ مطہرہ نے زنا کا دروازہ بند کرنے کے لیے نامحرم کے سامنے چہرہ کھولنا حرام قراردیا۔"
(احزاب ، جلد : 6 ، صفحہ : 257 ، طبع : مکتبۃ المعارف)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102247
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن