بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

پرندوں کا کاروبار کرنے کا حکم


سوال

پرندوں کا کاروبار کرنا کیسا ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعتِ مطہرہ نے پرندوں کے پکڑنے اور ان کی خریدو فروخت کو  چند شرائط کے ساتھ جائز قرار دیاہے،یعنی انہیں ستایانہ جائے،دانہ دیا جائے اور بیماری میں علاج معالجہ کیاجائے، ان شرائط کی پابندی کے ساتھ پرندوں  کی خریدوفروخت جائزہے۔

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عمر رضي الله عنهما:عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: (‌دخلت ‌امرأة ‌النار في هرة ربطتها، فلم تطعمها، ولم تدعها تأكل من خشاش الأرض)."

ترجمہ: ایک عورت صرف اس لیے جہنم چلی گئی کہ اس نے ایک بلی باندھ رکھی تھی ، لیکن نہ تو اسے خود کھلایا اور نہ ہی اسے کھلا چھوڑا کہ وہ زمین حشرات الارض سے پیٹ بھر لے۔

(كتاب بدء الخلق، باب خمس من الدواب فواسق، ج:3، ص:1205، ط: دار ابن كثير)

فتح الباری میں ہے:

"عن أنس قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم أحسن الناس خلقا، وكان لي أخ يقال له أبو عمير - قال: أحسبه فطيما - وكان إذا جاء قال: يا أبا عمير، ما فعل النغير؟ نغر كان يلعب به...وفي هذا الحديث عدة فوائد...جواز إمساك الطير في القفص ونحوه."

(كتاب الأدب، باب الكنية للصبي، ج:10، ص:584، ط: دارالكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكذلك بيع السنور وسباع الوحش والطير جائز عندنا معلما كان أو لم يكن كذا في فتاوى قاضي خان... ويجوز بيع جميع الحيوانات سوى الخنزير وهو المختار كذا في جواهر الأخلاطي."

(كتاب البيوع، الباب التاسع، الفصل الخامس، ج:3، ص:114، ط: دار الفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح بيع الكلب) ولو عقورا (والفهد) والفيل والقرد (والسباع) بسائر أنواعها حتى الهرة وكذا الطيور (علمت أو لا) سوى الخنزير وهو المختار."

(كتاب البيوع، باب المتفرقات، ج:5، ص:227، ط: سعيد)

فتاوی حقانیہ میں ہے:

"شریعتِ مقدسہ نے پرندوں کے شکار اور پکڑنے کو جائز قرار دیا ہے اور ان کی خرید وفروخت کی بھی اجازت دی ہے، اس معاملہ  میں فریقین کی رضا مندی سے جو بھی قیمت متعین کی جائےشرعاً مرخص ہوگی۔"

(کتاب البیوع، باب مایجوز بیعہ ومالایجوز، ج:6، ص:51، ط: جامعہ فاروقیہ حقانیہ اکوڑہ خٹک)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144510100076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں