میرا ایک مکان ہے، جس میں عرصہ 27 سال سے اہلِ تشیع کرایہ پر رہتے ہیں، اور برابر میں یعنی پڑوسی بھی اہلِ تشیع ہیں، سب ایک گاؤں کے لوگ ہیں، ابھی میں اپنا مکان فروخت کرنا چاہتا ہوں، کرایہ دار کہتا ہے کہ میں اس مکان میں 27 سال سے رہتا ہوں، اور غیر آدمی بھی نہیں ہوں، آپ کے پڑوس کے گاؤں والا ہوں، اس مکان کے خریدنے کا میرا حق بنتا ہے، جب کہ پڑوسی کہتا ہے کہ اس مکان کے خریدنے کا حق میرا بنتا ہے۔
آپ راہ نمائی فرما دیں کہ کس کا حق بنتا ہے؟
اگر کوئی آدمی اپنا مکان فروخت کرنا چاہتا ہو اور اس مکان کا کرایہ دار اور پڑوسی دونوں اس مکان کی خریداری میں دلچسپی رکھتے ہوں تو اس مکان کو خریدنے کا حق دار اُس کا پڑوسی ہو گا، اُس مکان میں رہنے والا کرایہ دار اس مکان کو خریدنے کا حق دار نہیں ہو گا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"سبب وجوب الشفعة أحد الأشياء الثلاثة الشركة في ملك المبيع، والخلطة وهي الشركة في حقوق الملك والجوار، وإن شئت قلت أحد الشيئين الشركة والجوار."
(کتاب الشفعۃ، سبب ثبوت حق الشفعۃ، جلد: 5، صفحہ:4، طبع:دار الکتب العلمیۃ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144311101361
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن