بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

پڑوسی کی خوشی پر غمگین ہونے والے شخص سے قطع تعلقی


سوال

کیا ایسی  پڑوسی  کے ساتھ تعلق رکھنا  چاہیے  یا  نہیں،  جومیری خوشی پر خفا ہوتا ہو ؟

جواب

حدیث میں ہے، حضرت عقبۃ بن عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو تجھ سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑو، جو تجھ پر ظلم کرے تم اس کو معاف کرو، جو تم سے بُرائی سے پیش آئے تم اس سے اچھائی کے ساتھ پیش آئے۔

"حدثنا حسين بن محمد، حدثنا ابن عياش، عن أسيد بن عبد الرحمن الخثعمي، عن فروة بن مجاهد اللخمي، عن عقبة بن عامر، قال: لقيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال لي: "يا عقبة بن عامر، صل من قطعك، وأعط من حرمك، واعف عمن ظلمك".

(مسند الإمام أحمد بن حنبل، ج:  28، صفحہ: 654، رقم الحدیث: 17452، ط:  مؤسسة الرسالة)

لہٰذا اگر بالفرض آپ کا پڑوسی آپ کی خوشی دیکھ کر کُڑھتا ہے، تو آپ اللہ  کے لیے اسے معاف کردیا کریں، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے اس کے ساتھ اور زیادہ احسان اور اچھے سلوک کا معاملہ کریں، ان شاء اللہ اس کی برکت سے (اگر )اس کے دل میں آپ سے متعلق حسد یا کینہ( ہوا بھی) تو ختم ہوجائے گا۔

المفاتیح میں ہے:

"2155 - وعن أبي هريرةَ - رضي الله عنه -، عن النبيِّ - صلى الله عليه وسلم - قال: "أدِّ الأَمانةَ إلى مَنِ ائْتَمَنَكَ، ولا تَخُنْ مَنْ خانَكَ".

قوله: "أدَّ الأمانة إلى من ائتمنك"، (ائتمن): إذا جعل أحدًا أمينًا وحافظًا على ماله أو شيءٍ آخر؛ يعني: مَن أودع عندك وديعةً، سلِّم تلك الوديعة إليه من غير نقصٍ وتصرُّف، ولا تَخُنْ فيه وإن خانك صاحبه؛ يعني: لا تفعل بالناس بمثل ما يفعلون بك من السوء، بل ‌أَحْسِنْ ‌إلى ‌مَن ‌أساء إليكَ."

(المفاتيح في شرح المصابيح، كتاب البيوع،باب الشَّرِكة والوكالة، الفصل الثاني، 3/ 476،الناشر: دار النوادر)

وفي المرقاة (تحت الحديث المذكور):

"قال الطيبي رحمه الله: الأولى أن ينزل الحديث على معنى قوله تعالى: (4 {ولا تستوي الحسنة ولا السيئة ادفع بالتي هي أحسن} [فصلت: 34] يعني إذا خانك صاحبك فلا تقابله بجزاء خيانته، وإن كان ذاك حسنا، بل قابله بالأحسن الذي هو عدم المكافأة، والإحسان إليه أي: ‌أحسن ‌إلى ‌من ‌أساء إليك (رواه الترمذي، وأبو داود، والدارمي)."

(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح، 5/ 1967، الناشر: دار الفكر، بيروت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144404100707

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں