بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

پڑوسی کو تکلیف پہنچانا ناجائز و حرام ہے


سوال

1۔ اسلام میں پڑوسی کے کیا حقوق ہیں؟

2۔ اگر پڑوس میں موجود دوسرا پڑوسی اپنی جگہ پر جانور باندھتا ہے جن کی وجہ سے بدبو ہوتی ہے اور ساتھ والے پڑوسی کو تکلیف ہوتی ہے، اسی طرح پڑوس میں شدید دھواں لگانا جس کی وجہ سے  ساتھ  والے کو تکلیف ہو جو کہ دمہ اور سانس کا مریض بھی ہو، اس کا شریعت میں کیا حکم ہے؟

3۔اور کسی شخص کا یہ کہنا کہ گاؤں کے ماحول میں یہ  چیزیں ہوتی  رہتی ہیں، اور آئندہ بھی ہوں گی، اس کا کیا حکم ہے؟شریعتِ مطہرہ کی روشنی میں جواب دے کر مشکور و ممنون فرمائیں۔

جواب

(1)نبی کریم ﷺنے اپنی تعلیمات و ہدایات میں ہمسائیگی اور پڑوس کے اس تعلق کو بڑی عظمت بخشی ہے اور اس کے احترام و رعایت کی بڑی تاکید فرمائی ہے کہ اس کو جزو ایمان اور داخلہٴ جنت کی شرط اور اللہ اور اس کے رسول کی محبت کا معیار قرار دیا ہے،اور ان کو تکلیف پہنچانا ناجائز و حرام قرار دیا ہے، پڑوسیوں کے حقوق میں سے بعض حقوق جو حدیث نبوی ﷺ میں وارد ہیں کہ:

 اگر پڑوسی  بیمارہوجائے تواس کی بیمارپرسی کی جائے۔

2۔اگراس کاانتقال ہوجائے تواس کے جنازے کے ساتھ جائے۔

3۔اگروہ ادھارمانگے تواس کوقرض دے۔

4۔اگران كے پاس كپڑے نہیں ہے تو ان کوکپڑے پہنائے۔

5۔اگرکوئی خوشی اس کوحاصل ہوتومبارک باددے۔

6۔اگرکوئی مصیبت اس پرطاری ہوتواس کوتسلی دے۔

7۔اوراپنے مکان کواس کے مکان سے اونچانہ کرے تاکہ وہ ہواسے محروم نہ رہے ۔

8۔اوراپنے چولہے کے دھویں سے اس کوایذاء نہ پہنچائے (یعنی اس کااہتمام کروکہ ہانڈی کی مہک اس کے گھرتک نہ جائے)ہاں مگریہ کہ اس کے برتن میں کچھ ڈال دے۔(یعنی اچھی چیزکی خوشبوسے وہ للچائے نہیں اسے بھی کچھ دے دو، تاکہ اسے اپنی ناداری اور غربت پرافسوس نہ ہو)۔

(2)اسلام نے پڑوسی کو تکلیف پہنچانے سے سختی سے منع فرمایا ہے، چناں چہ جناب رسول اللہ ﷺ کا ارشاد مبارک ہے: "وہ ایمان والا نہیں، واللہ (اللہ کی قسم)! وہ ایمان والا نہیں، واللہ! وہ ایمان والا نہیں۔" عرض کیا گیا : اللہ کے رسول! کون؟ آپﷺ نے فرمایا: "جس کا ہمسایہ اس کی اذیتوں سے محفوظ نہ ہو"، صورتِ مسئولہ میں اگر بیمار پڑوسی کو اپنے پڑوسی کے جانور باندھنے اور بدبو کی وجہ سے تکلیف ہو تو یہ ناجائز ہے، اس لیے جانور کسی متبادل جگہ باندھے،تاکہ پڑوسی کو تکلیف نہ ہو۔

(3)معاشرتی زندگی میں پڑوسیوں کا باہم ایک دوسرے سے تعاون کرنا لازمی و ضروری ہے کہ عام معاشرے میں سب سے زیادہ واسطہ انسان کا پڑوسی  سے ہی پڑتا ہے، جانبین سے ایک دوسرے کی رعایت اور ایک دوسرے کا خیال کرنا چاہیے تاکہ کسی پڑوسی کو تکلیف نہ ہو؛ اس لیے کہ پڑوسی کو تکلیف پہنچانا ناجائز و حرام اور گناہِ کبیرہ ہے، اس سے اجتناب کر ے اور پڑوسی کو ایذا رسانی کے وعیدات سے اپنے آپ کو بچائے۔

بخاری شریف میں ہے:

"حدثنا ‌عاصم بن علي: حدثنا ‌ابن أبي ذئب، عن ‌سعيد، عن ‌أبي شريح أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «والله لا يؤمن والله لا يؤمن، والله لا يؤمن. قيل: ومن يا رسول الله؟ قال: الذي لا يأمن جاره ‌بوايقه» تابعه شبابة وأسد بن موسى. وقال حميد بن الأسود وعثمان بن عمر وأبو بكر بن عياش وشعيب بن إسحاق عن ابن أبي ذئب عن المقبري عن أبي هريرة"

(‌‌باب إثم من لا يأمن جاره بوايقه {يوبقهن} يهلكهن {موبقا} مهلكا، ج: 8، ص: 10، ط: سلطانیة)

سنن ابی داود میں ہے:

"حدثنا ‌الربيع بن نافع أبو توبة، نا ‌سليمان بن حيان ، عن ‌محمد بن عجلان ، عن ‌أبيه ، عن ‌أبي هريرة قال: «جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم ‌يشكو ‌جاره قال: اذهب فاصبر فأتاه مرتين أو ثلاثا، فقال: اذهب فاطرح متاعك في الطريق فطرح متاعه في الطريق، فجعل الناس يسألونه، فيخبرهم خبره، فجعل الناس يلعنونه، فعل الله به، وفعل، وفعل، فجاء إليه ‌جاره، فقال له: ارجع لا ترى مني شيئا تكرهه.»"

(باب في حق الجوار، ج: 4، ص: 504، ط: المطبعة الأنصارية بدهلي- الهند)

المفاتیح فی شرح المصابیح میں ہے:

"وقال: "والله لا يؤمن، والله لا يؤمن، والله لا يؤمن"، قيل: من، يا رسول الله؟ قال: "الذي لا يأمن ‌جاره ‌بوائقه".
قوله: "لا يأمن ‌جاره ‌بوائقه"، (البوائق): جمع بائقة وهي الداهية، والمراد بها ها هنا الضرر والمشقة."

(باب الشفقة والرحمة على الخلق، ج: 5، ص: 219،  ط: دار النوادر)

مجمع الزوائد میں ہے:

"وعن معاوية بن حيدة قال: قلت: يا رسول الله، ما ‌حق ‌جاري علي؟؟ قال: " «إن مرض عدته، وإن مات شيعته، وإن استقرضك أقرضته، وإن أعوز سترته، وإن أصابه خير هنأته، وإن أصابته مصيبة عزيته، ولا ترفع بناءك فوق بنائه فتسد عليه الريح، ولا تؤذه بريح قدرك إلا أن تغرف له منها» "، رواه الطبراني، وفيه أبو بكر الهذلي، وهو ضعيف"

(باب حق الجار والوصية بالجار، ج: 8، ص: 165، ط: مکتبة القدسي۔ القاهره)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144512100799

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں