ایک شخص نے اپنی بیوی کو کہا کہ ځوانه ښځه ئي زان لہ بل خاوند او که (جوان عورت ہو اپنے لیے دوسرا شوہر کرو) اس کے بعد تقریبا نو سال سے حقوق زوجیت بھی ادا نہیں کی اور نہ ہی نان نفقہ دیتا ہے، وہ شخص اب نہ طلاق دیتا ہے نہ ہی حقوقِ زوجیت ادا کرتا ہے ،کہتا ہے "ایسے ہی رہو"
کیا مذکورہ پشتو کے الفاظ کہنے سے طلاق واقع ہوئی یا نہیں؟
صورتِ مذکورہ میں طلاق کے الفاظ" ځوانه ښځه ئي زان لہ بل خاوند او که" ادا کئے ان الفاظ کا تعلق شوہر کی نیت کے ساتھ ہے اگر شوہر کا ان الفاظ سے طلاق کی نیت تھی تو ا س کی بیوی پر طلاقِ بائن واقع ہوگئی ہے،اس صورت میں نکاح ختم ہوگیا ، عورت دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے،البتہ شوہر کی نیت طلاق کی نہیں تھی، اس صورت میں نکاح بدستور قائم ہے، اگر عورت شوہر سے طلاق یا خلع کے مطالبہ کررہی اور وہ طلاق یا خلع نہیں دے رہا تو اس کی اہلیہ شوہر کے حقوق ، نان و نفقہ نہ دینے کی بنیاد پر تنسیخِ نکاح کا مقدمہ مسلم عدالت میں دائر کرے،پھر اپنے نکاح کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ،اس کے بعد شوہر کے حقوق ادا نہ کرنے کو شرعی گواہوں سے ثابت کرے ،پھرقاضی شرعی شہادت کے ذریعہ پوری تحقیق کرے،اگر عورت کا دعویٰ صحیح ثابت ہو کہ شوہر باوجود وسعت کے حقوق ادا نہیں کررہا تو جج شوہرکوعدالت میں حاضر ہونے کاسمن جاری کرے ، اگر شوہر عدالت میں حاضر ہوکر گھر بسانے پر آمادہ ہوجائے تو ٹھیک،لیکن اگر وہ عدالت میں حاضر نہ ہو یا حاضر ہو لیکن حقوق کی ادائیگی پر راضی نہ ہو تو عدالت نکاح فسخ کردے، جس کے بعد عورت اپنی عدت گزار کر دوسری جگہ نکاح کر سکتی ہے۔
(واضح رہے کہ یک طرفہ خلع یا خلع بذریعہ تنسیخِ نکاح سے عورت اپنے شوہر کی نکاح میں بدستور رہے گی)
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وبابتغي الأزواج تقع واحدة بائنة إن نواها أو اثنتين وثلاث إن نواها هكذا في شرح الوقاية. وكذا صحت نية الثنتين في الأمة كذا في النهر الفائق."
(كتاب الطلاق، الباب الثاني، الفصل الخامس، ج: 1، ص: 375 ط: دار الفکر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144602100531
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن