اپنے دوسرے بچے کی پیدائش سے پہلے میں نے یہ نیت کی تھی کہ اللہ نے پھر بیٹا دیا تو اس کا نام بھی محمد رکھوں گا جب کہ پہلے بیٹے کا نام بھی محمد ہے۔ اب میں سوچ رہا ہوں کہ چھوٹے نومولود کا نام" محمد ثانی" رکھ دوں؛ تاکہ دونوں بچوں کے ناموں میں واضح تمیز ہو پائے۔
1- "محمد ثانی" نام رکھنا درست ہے؟ کیوں کہ مجھے یہ سوچ آتی ہے کہ ہمارے آقا علیہ السلام کا تو کوئی ثانی نہیں، یعنی دوسرا محمد کیوں کہ پہلے بیٹے کا نام بھی محمد رکھا ہوا ہے میں نے!
2- علم الاعداد کے مطابق یہ نام درست ہے؟ آپ کی راہنمائی درکار ہے۔
۱ : ’’محمد ثانی‘‘ نام رکھنا درست ہے اس لیے کہ یہاں ’ثانی‘ کا مقصد آپ کے پہلے بیٹے کو دوسرے بیٹے سے ممتاز کرنا ہے نہ کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ثانی قرار دینا ہے۔
۲ : علم الاعداد کی روشنی میں کسی نام کے صحیح یا غلط ؍ اچھا یا برا ہونے کا تصور رکھنا یا علم الاعداد کو نام میں موثر سمجھنا غیر شرعی اور قابلِ اصلاح سوچ ہے۔ نام کے اچھا ہونے کا تعلق اس سے ہے کہ وہ سلفِ صالحین کے ناموں کو موافق ہو یا اچھے معنی پر مشتمل ہو اور نام کے برا ہونے کا تعلق اس کے برے معنی سے ہے۔
کفایت المفتی میں ہے :
"ابجد کے موافق اعداد کا شمار اور اعتبار کرنابعض چیزوں میں جائز ہے،مگر اس سے کوئی ایسا کام لیناجیساکہ علمِ نجوم میں لیاجاتاہے، جائز نہیں ہے ۔"
(جادو، رمل، فال قرعہ، نجوم وغیرہ، ابجد حساب کرنا اور اپنا نام نکال کر ستارہ دیکھنا، 9/222دارالاشاعت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144310101378
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن