بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

پیشہ ور گداگر کو صدقاتِ واجبہ یا نافلہ دینے کا حکم


سوال

جو پیشہ ور گداگر عورتیں گھر گھر جاکر مانگتی ہیں کیا ان کو صدقات واجبہ یا نفلی صدقہ دینا جائز ہے؟ کیوں کہ اگر ان کو نہ دیا جائے تو یہ گالیاں اور بددعائیں دینا شروع ہو جاتی ہیں اور دینے کو دل نہیں کرتا  کہ ان پیشہ ور کی بجائے ان کو دیا جو اصل مستحق ہیں اور سوال نہیں کرتے تو کیا ان کو مناسب طریقے سے منع کرنے سے کوئی گناہ تو نہیں کہ سائل کو خالی ہاتھ لوٹا دیا،  جب کہ وہ اللہ کے نام پر سوال کر رہا تھا۔

جواب

واضح رہے کہ جس آدمی کے پاس ایک دن کا کھانا ہو اور ستر ڈھانکنے کےلیے  کپڑا ہو اس کے لیے لوگوں سے مانگنا جائز نہیں ہے، اسی طرح جو آدمی کمانے پر قادر ہو  اس  کے لیے بھی سوال کرنا جائز نہیں، البتہ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن مانگنے کو عادت اور پیشہ بنالینا بالکل بھی جائز نہیں ہے، حدیث شریف میں آتا ہے کہ جو شخص بلا ضرورت مانگتا ہے، قیامت کے دن اس کا یہ مانگنا اس کے چہرے پر زخم بن کر ظاہر ہوگا،ایک روایت میں ہے کہ جو اپنا مال بڑھانے کے لیے سوال کرتاہے تو یہ جہنم کے انگارے جمع کررہاہے، اب چاہے تو کم جمع کرے یا زیادہ۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں   جن کے بارے میں علم ہو کہ یہ پیشہ ور گدا گر ہیں تو ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، تاہم اس میں متکبرانہ انداز اختیار نہ کیا جائے، انہیں جھڑکا نہ جائے، بلکہ مناسب  طریقہ سے معذرت کرلی جائے، البتہ اگر کسی نے ان کو  کچھ دے دیا  تو وہ گناہ گار نہ ہوگا، لینے والا گناہ گار ہوگا، البتہ ایسے افراد کو زکات یا صدقاتِ واجبہ نہیں دینا چاہیے۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من سأل الناس أموالهم تكثراً؛ فإنما يسأل جمراً فليستقل أو ليستكثر."

(‌‌كتاب الزكاة، باب كراهة المسألة للناس، ج:3، ص:96، ط: دار الطباعة العامرة)

فتاوی شامی میں ہے:

"وسيأتي في باب المصرف أنه ‌لا ‌يحل ‌أن ‌يسأل ‌شيئا من له قوت يومه بالفعل أو بالقوة كالصحيح المكتسب ويأثم معطيه إن علم بحالته لإعانته على المحرم."

(‌‌كتاب الصلاة، باب باب الجمعة، ج:2، ص:163، ط: سعید)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501102515

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں