مجھے چھوٹا پیشاب کرنے اور استبرا کرنے بعد یعنی جب چالیس قدم چلتا ہوں تو میرے عضو کے سرے پر ایک قطرہ ظاہر ہو جاتا ہے،پیشاب کے اس قطرہ کے بارے میں کیا حکم ہے؟ دوبارہ استنجا کیے بغیر نماز ادا کرسکتا ہوں؟ کیوں کہ اگر یہ قطرہ کپڑوں پر بھی لگے تو درہم سے زیادہ نہیں ہوگا، اس وجہ سے پریشان ہوں کہ کیا کروں؟ کیوں کہ اس سارے مرحلہ میں 15 منٹ گزر جاتے ہیں، استبرا کرنے پر 10 منٹ، بعد پھر یہ قطرہ آیا تو دھونے پر پانچ منٹ۔ اگر اس کی دین میں رعایت ہے تو ضرور بتائیے، مجھے واش روم کرنے جانا اب بہت بوجھ محسوس ہوتا ہے،اس وجہ سے نفسیاتی مریض بن چکا ہوں، اس ایک قطرہ کی وجہ سے بہت زیادہ پریشانی ہوتی ہے۔ کیا ایسا سب کے ساتھ ہوتا ہے؟ یا میرے ساتھ ہی ہو رہا ہے؟ پہلے نارمل لائف گزار رہا تھا، کسی جگہ استبراء کا مسئلہ سنا تو استبراء کرنے اور چالیس قدم چلنے پر اس وہم میں پھنس گیا ہوں، بہت پریشان ہوں، لہذا کوئی ایسی رہنمائی فرمائیں کہ استنجا پانچ منٹ ہوجایا کرے۔
واضح رہے کہ استبراء کے لیے چالیس قدم چلنا ضروری نہیں، چند قدم چلنے یا پیشاپ کرنے کے بعد کچھ دیر بیٹھے رہنے سے یہ اطمینان ہوجائے کہ پاکی حاصل ہوگئی اور اب مزید کوئی قطرہ نہیں نکلے گا، یہ کافی ہے، لیکن اس کے بعد بھی اگر پیشاپ کی نالی کے سرے پر قطرہ ظاہر ہو تو وضو ٹوٹ جائے گا اور استنجاء ضروری ہوگا۔ لیکن اس میں غلو اور شدت سے کام لینا شرعاً مذموم ہے اور آدمی وسوسہ کا مریض بن جاتا ہے، لہذا سائل افراط وتفریط کے بغیر اعتدال کے ساتھ استنجاء کرے اور پیشاپ کرنے کے بعد دلی اطمینان حاصل کرنے کے لیے چند قدم چل لیا کرے، یا کچھ دیر بیٹھ جائے، یا پھر زور سے کھنکھار لے اور کوئی قطرہ نکل آئے تو اس کو دھولے، اس کے بعد اس کی طرف مزید کوئی توجہ نہ دے، ورنہ وسوسہ کا مریض بن جائے گا اور وسوسہ کی وجہ سے قطرہ نکلتے محسوس ہوں گے، چناں چہ مولانا اشرف علی تھانویؒ لکھتے ہیں:
’’عوارف المعارف میں لکھا ہے کہ اس کا حال تھن کا سا ہے کہ جب تک ملتے رہیں کچھ نہ کچھ نکلتا رہتا ہے اور اگر یوں ہی چھوڑ دیں تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔ جب تک بتکلف جبر کر کے وسوسہ کے خلاف نہ کیجیے گا یہ مرض نہ جائے گا ۔۔۔ چند روز بے التفاتی کرنے سے وسوسے جاتے رہیں گے۔‘‘(ملفوظات کمالات اشرفیہ، وسوسہ طہارت کا علاج، ص:۲۶۷،ط : بشریٰ)
پس سائل قطرہ آنے کے وسوسہ کی طرف توجہ دینا چھوڑدے اور استنجاء کے بعد جب کبھی وسوسہ کا شکار ہو تو تین مرتبہ "أعوذُ باللهِ، آمَنْتُ بِاللهِ وَرُسُلِهِ" پڑھ کر کسی اور کام کی طرف متوجہ ہوجایا کرے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"يجب الاستبراء بمشي أو تنحنح أو نوم على شقه الأيسر، ويختلف بطباع الناس.
(قوله: يجب الاستبراء إلخ) هو طلب البراءة من الخارج بشيء مما ذكره الشارح حتى يستيقن بزوال الأثر. وأما الاستنقاء هو طلب النقاوة: وهو أن يدلك المقعدة بالأحجار أو بالأصابع حالة الاستنجاء بالماء. وأما الاستنجاء: فهو استعمال الأحجار أو الماء، هذا هو الأصح في تفسير هذه الثلاثة كما في الغزنوية. وفيها أن المرأة كالرجل إلا في الاستبراء فإنه لا استبراء عليها، بل كما فرغت تصبر ساعة لطيفة ثم تستنجي، ومثله في الإمداد. وعبر بالوجوب تبعا للدرر وغيرها، وبعضهم عبر بأنه فرض وبعضهم بلفظ ينبغي وعليه فهو مندوب كما صرح به بعض الشافعية، ومحله إذا أمن خروج شيء بعده فيندب ذلك مبالغة في الاستبراء أو المراد الاستبراء بخصوص هذه الأشياء من نحو المشي والتنحنح، أما نفس الاستبراء حتى يطمئن قلبه بزوال الرشح فهو فرض وهو المراد بالوجوب، ولذا قال الشرنبلالي: يلزم الرجل الاستبراء حتى يزول أثر البول ويطمئن قلبه. وقال: عبرت باللزوم لكونه أقوى من الواجب؛ لأن هذا يفوت الجواز لفوته فلا يصح له الشروع في الوضوء حتى يطمئن بزوال الرشح. اهـ. (قوله: أو تنحنح) لأن العروق ممتدة من الحلق إلى الذكر وبالتنحنح تتحرك وتقذف ما في مجرى البول. اهـ. ضياء. (قوله: ويختلف إلخ) هذا هو الصحيح فمن وقع في قلبه أنه صار طاهرا جاز له أن يستنجي؛ لأن كل أحد أعلم بحاله ضياء."
(کتاب الطھارۃ، باب الأنجاس، فروع فی الإستنجاء، ج:1، ص:344،345، ط: ایچ ایم سعید)
وفیہ أیضاً:
"(وينقضه) خروج منه كل خارج (نجس) بالفتح ويكسر (منه) أي من المتوضئ الحي معتادا أو لا، من السبيلين أو لا (إلى ما يطهر) بالبناء للمفعول: أي يلحقه حكم التطهير. ثم المراد بالخروج من السبيلين مجرد الظهور.
(قوله: مجرد الظهور) من إضافة الصفة إلى الموصوف: أي الظهور المجرد عن السيلان، فلو نزل البول إلى قصبة الذكر لا ينقض لعدم ظهوره، بخلاف القلفة فإنه بنزوله إليها ينقض الوضوء."
(کتاب الطھارۃ، ج:1، ص:134،135، ط: ایچ ایم سعید)
منتقی الاذکار میں ہے:
"ما يقول إذا بلي بالوسوسة: يقول: أعوذ بالله، آمنت بالله ورسله. قال النبي صلى الله عليه وسلم: « … فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته» ، وقال عليه الصلاة والسلام: « … فمن وجد من ذلك شيئا، فليقل: آمنت بالله ورسله»."
(الفصل الثالث، ص:45، ط: دار الألوكة للنشر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144607103011
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن