پیالہ کس طرح پکڑنا مسنون ہے ىعنى کتنی انگلیوں سے پکڑنا مسنون ہے؟
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ سے کھانے پینے کے وہ تمام آداب اور مسنون طریقے منقول ضرور ہیں،جو طریقے اصولی حیثیت رکھتے ہیں۔ البتہ جو امور شریعت کے دائرے میں واضح طور پر نہیں آئے یا اس سے کوئی شرعی حکم متعلق نہیں ہے،تو انہیں نبی کریم ﷺ نے عام انسانی عادت، ماحول اور اصطلاحات پر چھوڑ دیا۔ یعنی کچھ چیزوں کے متعلق واضح احکام دیے گئے ہیں، جبکہ بعض چیزیں عادات، موقع و محل اور ضرورت پر چھوڑ دی گئیں ۔ چنانچہ نبی کریم ﷺ نے پانی پینے کے حوالے سے کچھ اصولی آداب مقرر فرمائے، جیسے: دائیں ہاتھ سے پینا، تین سانس میں پینا، بیٹھ کر پینا، اور ٹوٹے ہوئے برتن سے نہ پیناوغیرہ۔
البتہ، جہاں تک یہ سوال ہے کہ نبی کریم ﷺ نے پیالہ پکڑنے کے لیے کتنی انگلیوں کا استعمال فرمایا، تو احادیث میں اس کی کوئی صراحت موجود نہیں۔ لہٰذا، انسان کے لیے یہ مسنون ہے کہ وہ دائیں ہاتھ سے پیالہ پکڑے، پانی وغیرہ کو تین سانس میں پیے، اور بیٹھ کر پیے۔ رہی بات انگلیوں کی تعداد کی، تو یہ پیالے کے سائز پر منحصر ہے۔ البتہ، ایسا طریقہ اختیار نہ کیا جائے کہ پیالے پر تمام انگلیوں کا دائرہ بنا کے پوری ہتھیلی پیالے میں ڈوب جائے، کیونکہ یہ خلافِ ادب ہے۔ اگر ہتھیلی پانی میں نہ ڈوبے، تو جتنی انگلیوں سے پیالہ کو مضبوطی سے پکڑا جائے، وہ بلا کراہت جائز ہے۔
مسلم شریف میں ہے:
"عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال إذا أكل أحدكم فليأكل بيمينه وإذا شرب فليشرب بيمينه فإن الشيطان يأكل بشماله ويشرب بشماله."
ترجمہ:"رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی کھائے تو دائیں ہاتھ سے کھائے، اور جب پیے تو دائیں ہاتھ سے پیے، کیونکہ شیطان بائیں ہاتھ سے کھاتا اور بائیں ہاتھ سے پیتا ہے۔"
وفیہ ایضاً:
"عن أنس قال كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يتنفس في الشراب ثلاثا ويقول إنه أروى وأمرأ وأبرأ."
ترجمہ:"حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ پانی پیتے وقت تین سانسوں میں پیتے اور فرماتے:یہ طریقہ زیادہ سیر کرنے والا، خوشگوار اور صحت کے لیے بہتر ہے۔"
وفیہ ایضاً:
"عن أبي قتادة أن النبي صلى الله عليه وسلم قال إذا شرب أحدكم فلا يتنفس في الإناء."
ترجمہ:"حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جب تم میں سے کوئی پانی پیے تو برتن میں سانس نہ لے۔"
(کتاب الاشربة،باب آداب الطعام والشراب وأحکامہما،ج:3،ص:1602-1599،ط:دار إحياء التراث العربي ببيروت)
فقط وأللہ اعلم
فتوی نمبر : 144609102109
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن