بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

پھل لگنے سے پہلے ہی باغ کو فروخت کرنے کا حکم


سوال

ہمارا مالٹے کا باغ ہے، جو ستمبر یا اکتوبر میں تیار ہوتا ہے لیکن ابھی سے باغ خریدنے والی پارٹیاں باغ خریدنا چاہتی ہیں،   کیا ہم اپنا باغ فروخت کر سکتے ہیں؟

جواب

پھلوں کی خریدوفروخت کا  صحیح طریقہ یہ ہے کہ جب پھل مکمل تیار ہو جائیں تو اس کے بعد خریدوفروخت کی جائے، البتہ اگر پھل درختوں پر لگ جائیں لیکن انسانوں کے کھانے کے قابل نہ ہوں تو ان کی خریدو فروخت  کی گنجائش ہے لیکن  شرط یہ ہےکہ پھل تیار ہونے تک درختوں پر چھوڑنے  کی شرط نہ لگائی جائے، اگر درختوں پر چھوڑنے کی  شرط لگائی جائے گی تو یہ عقد جائز نہیں ہو گا، نیز اگر  پھلوں کا ابھی تک بالکل وجود ہی نہ ہو تو  باغ کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔

مذکورہ تفصیل کی رو سےابھی سے  مالٹے کے باغ کو  فروخت کرنا جائز نہیں ہے، البتہ بیچنے کا وعدہ کیا جا سکتا ہے۔

تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے :

"(ومن باع ثمرة بارزة)أما قبل الظهور فلا يصح اتفاقا. (ظهر صلاحها أو لا صح) في الأصح."

رد المحتار میں ہے :

"(قوله: أما قبل الظهور) أشار إلى أن البروز بمعنى الظهور، والمراد به انفراد الزهر عنها وانعقادها ثمرة وإن صغرت. (قوله: ظهر صلاحها أو لا) قال: في الفتح لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح، بشرط الترك ولا في جوازه قبل بدو الصلاح بشرط القطع فيما ينتفع به، ولا في الجواز بعد بدو الصلاح،۔۔۔والخلاف إنما هو في بيعها قبل بدو الصلاح ۔۔۔ وعندنا إن كان بحال لا ينتفع به في الأكل، ولا في علف الدواب فيه خلاف بين المشايخ قيل: لا يجوز ونسبه قاضي خان لعامة مشايخنا، والصحيح أنه يجوز؛ لأنه مال منتفع به في ثاني الحال إن لم يكن منتفعا به في الحال."

(کتاب البیوع، مطلب في بيع الثمر والزرع والشجر مقصودا، ج : 4، ص :554/55، ط : سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم، وماله خطر العدم كبيع نتاج النتاج بأن قال: بعت ولد ولد هذه الناقة وكذا بيع الحمل؛ لأنه إن باع الولد فهو بيع المعدوم، وإن باع الحمل فله خطر المعدوم، وكذا بيع اللبن في الضرع؛ لأنه له خطر لاحتمال انتفاخ الضرع، وكذا بيع الثمر، والزرع قبل ظهوره؛ لأنهما معدوم، وإن كان بعد الطلوع جاز، وإن كان قبل بدو صلاحهما إذا لم يشترط الترك."

(کتاب البیوع، فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه، ج : 6، ص : 542، ط : دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144512100830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں