بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

فون پر نکاح / اللہ میاں او رسول اللہ ﷺ کو گوہ بنانا


سوال

ایک لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں اور لڑکے نے لڑکی سے کہا کہ نکاح کر لیتے ہیں اور فون کال پر اس لڑکے نے خود نکاح پڑھا، اللہ تعالیٰ اور رسول کو گواہ بنا کر تو کیا اس طرح نکاح ہو جاتا ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ    میں مذکورہ نکاح  نہیں ہوا؛ کیوں کہ موبائل  فون پر نکاح منعقد نہیں ہوتا ہے ، اس لیے  کہ نکاح  میں ایجاب و قبول کے درست و معتبر ہونے کے لیے اتحادِ مجلس (مجلس کا ایک ہونا) شرط ہے، جو کہ ٹیلی فون پر نکاح کی صورت میں نہیں پائی جارہی، کیوں کہ ایجاب کرنے والا کہیں اور ہوتا ہے اور قبول کرنے والا کہیں اور،اسی طرح   نکاح کے درست ہونے کے لیےمجلسِ عقد میں کم از کم دو مسلمان عاقل بالغ مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کا گواہ ہونا بھی شرط ہے، اور  موجودہ صورت میں گواہ موجود نہیں ہے ، لہذا یہ نکاح شرعا منعقد ہی نہیں ہوا۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ومنها) الشهادة قال عامة العلماء: إنها شرط جواز النكاح هكذا في البدائع وشرط في الشاهد أربعة أمور: الحرية والعقل والبلوغ والإسلام... كذا في البدائع ويصح بشهادة الفاسقين والأعميين، كذا في فتاوى قاضي خان وكذا بشهادة المحدودين في القذف وإن لم يتوبا، كذا في البحر الرائق وكذا يصح بشهادة المحدود في الزنا، كذا في الخلاصة، وينعقد بحضور من لا تقبل شهادته له أصلا كما إذا تزوج امرأة بشهادة ابنيه منها وكذا إذا تزوج بشهادة ابنيه لا منها أو ابنيها لا منه هكذا في البدائع والأصل في هذا الباب أن كل من يصلح أن يكون وليا في النكاح بولاية نفسه صلح أن يكون شاهدا، ومن لا فلا.

كذا في الخلاصة ويشترط العدد فلا ينعقد النكاح بشاهد واحد هكذا في البدائع ولا يشترط وصف الذكورة حتى ينعقد بحضور رجل وامرأتين، كذا في الهداية ولا ينعقد بشهادة المرأتين بغير رجل وكذا الخنثيين إذا لم يكن معهما رجل هكذا في فتاوى قاضي خان."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، ج:1، ص:267، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"ومن ‌تزوج ‌امرأة ‌بشهادة ‌الله ‌ورسوله ‌لا ‌يجوز النكاح."

(كتاب النكاح، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه، ج:1، ص:268، ط: دار الفكر)

وفیہ ایضاً:

"(ومنها) أن يكون الإيجاب والقبول في مجلس واحد حتى لو اختلف المجلس بأن كانا حاضرين فأوجب أحدهما فقام الآخر عن المجلس قبل القبول أو اشتغل بعمل يوجب اختلاف المجلس لاينعقد وكذا إذا كان أحدهما غائبا لم ينعقد حتى لو قالت امرأة بحضرة شاهدين: زوجت نفسي من فلان وهو غائب فبلغه الخبر فقال: قبلت، أو قال رجل بحضرة شاهدين: تزوجت فلانة وهي غائبة فبلغها الخبر فقالت: زوجت نفسي منه لم يجز وإن كان القبول بحضرة ذينك الشاهدين، وهذا قول أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى- ولو أرسل إليها رسولاً أو كتب إليها بذلك كتاباً فقبلت بحضرة شاهدين سمعا كلام الرسول وقراءة الكتاب جاز؛ لاتحاد المجلس من حيث المعنى."

(کتاب النکاح ،، الباب الأول في تفسيره شرعا وصفته وركنه وشرطه وحكمه،ج:1، ص:269، ط:دارالفکر)

اللباب فی شرح الکتاب میں ہے:

"(ولا ينعقد نكاح المسلمين) بصيغة المثنى (إلا بحضور شاهدين حرين بالغين عاقلين مسلمين) سامعين معا قولهما فاهمين كلامهما على المذهب كما في البحر."

(کتاب النکاح ج:3، ص:3، ط: المکتبة العلمیة)

البحر الرائق میں ہے:

"وفي الخانية والخلاصة ‌لو ‌تزوج ‌بشهادة ‌الله ورسوله لا ينعقد ويكفر لاعتقاده أن النبي يعلم الغيب وصرح في المبسوط بأن النبي صلى الله عليه وسلم كان مخصوصا بالنكاح بغير شهود، ولا يشترط الإعلان مع الشهود لما في التبيين أن النكاح بحضور الشاهدين يخرج عن أن يكون سرا ويحصل بحضورهما الإعلان. اهـ."

 (کتاب النکاح ،باب الشهود، ج:3، ص:  94، ط:دار الكتاب الإسلامي)

مجمع الأنهر میں ہے"

"(و) شرط أيضا (حضور) شاهدين فلو تزوج امرأة بشهادة الله تعالى ورسوله لا يجوز النكاح وعن قاسم الصفار وهو كفر محض؛ لأنه اعتقد أن رسول الله عليه السلام ‌يعلم ‌الغيب ‌وهذا ‌كفر،.

وفي التتارخانية إنه لا يكفر لأن بعض الأشياء يعرض على روحه عليه الصلاة والسلام فيعرف ببعض الغيب قال الله تعالى:{عالم الغيب فلا يظهر على غيبه أحدا} [الجن: 26] {إلا من ارتضى من رسول} [الجن: 27]."

 

(كتاب النكاح، شروط صحة النكاح، ج:1، ص:320، ط:دار إحياء التراث العربي، بيروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"ومن شرائط الإیجاب والقبول: اتحاد المجلس لوحاضرین...

(قوله: اتحاد المجلس) قال في البحر: فلو اختلف المجلس لم ینعقد، فلو أوجب أحدهما فقام الآخر أو اشتغل بعمل آخر، بطل الإیجاب؛ لأن شرط الارتباط اتحاد الزمان، فجعل المجلس جامعاً تیسیراً".

(کتاب النکاح، ج:3، ص:14، ط: سیعد)

وفیہ ایضاً:

" تزوج بشهادة الله ورسوله لم يجز، بل قيل يكفر، والله أعلم.

(قوله: قيل بكفر) لأنه اعتقد أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عالم الغيب قال في التتارخانية: وفي الحجة ذكر في الملتقط أنه لا يكفر لأن الأشياء تعرض على روح النبي - صلى الله عليه وسلم - وأن الرسل يعرفون بعض الغيب قال تعالى- {عالم الغيب فلا يظهر على غيبه أحدا} [الجن: 26] {إلا من ارتضى من رسول} [الجن: 27]-. اهـ.

قلت: بل ذكروا في كتب العقائد أن من جملة كرامات الأولياء الاطلاع على بعض المغيبات وردوا على المعتزلة المستدلين بهذه الآية على نفيها بأن المراد الإظهار بلا واسطة، والمراد من الرسول الملك أي لا يظهر على غيبه بلا واسطة إلا الملك، أما النبي والأولياء فيظهرهم عليه بواسطة الملك أو غيره."

(کتاب النکاح،ج:3، ص:27، ط: سعید)

المحيط البرهاني في الفقه النعماني میں ہے:

"تزوج امرأة بشهادة الله ورسوله لا يجوز؛ لأن هذا نكاح لم يحضره شهود، وعن أبي القاسم الصفار رحمه الله أنه قال: يكفر من فعل هذا؛ لأنه اعتقد أن رسول الله عليه السلام عالم الغيب."

(‌‌کتاب النکاح، الفصل السابع في الشهادة في النكاح، ج:3، ص:29،ط: دار الكتب العلمية، بيروت - لبنان)

فتاویٰ محمودیہ میں ہے:

 " نکاح میں گواہ

اللہ کی گواہی سے نکاح منعقد نہیں ہوتا

سوال:-عنایت اللہ نے ایک غیرمسلم شادی شدہ عورت سے ناجائز تعلق پیدا کرلیا اور اس کواپنے  گھر لے آئے۔ لوگوں کے دریافت کرنے پرکہاکہ میں نے اس کومسلمان کرلیا ہے اورنکاح کرلیا ہے لال محمد نے نکاح پڑھا یاجو مرچکے۔گواہ اللہ میاں تھے۔ ایسی صورت میں یہ نکاح ہوا یا نہیں ؟

الجواب حامداًومصلیاً

اگرعورت مسلمان ہونے کا اقرار کرتی ہے تو وہ مسلمہ ہے لیکن وہ عنایت اللہ کی بیوی نہیں۔ عنایت اللہ کا نکاح اس سے منعقد نہیں ہوا۔ولاینعقد نکاح المسلمین الاَّ بحضور شاہدین حرین عاقلین بالغین مسلمین رجلین او رجل وامرأتین۔ (ہدایہ۱؂ ص۳۸۶؍ ج۲؍) نکاح کے لئے دومردوں یاایک مرد اوردوعورت کاموجود ہونا ضروری ہے۔ صرف اللہ میاں کی گواہی صحت نکاح کے لئے کافی نہیں ،  اللہ میاں توہرچیز کودیکھتے ہیں حلال ہو یا حرام ۔

      فقط واللہ سبحانہٗ تعالیٰ اعلم

    حررہٗ العبد محمو دعفی عنہٗ دارالعلوم دیوبند ۲۵؍ ۲؍  ۸۹ھ؁

"نکاح میں خدا اور رسول اورفرشتوں کوگواہ بنانا

۔۔۔۔۔۔ "حاصل یہ ہے کہ ہرجگہ،ہروقت حاضروناظر ہونااللہ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے، کسی اور فرشتہ یاپیغمبر کے لئے بھی یہ ثابت کرنا درست نہیں بلکہ شرک ہے۔ جس نے کسی عورت سے نکاح کیا اوروہاں کوئی گواہ سامنے نہیں تھابلکہ خدا اور رسول کوگواہ بنایا تواس نے رسول کوخدا کی طرح حاضر ناظر مانا یاتمام فرشتوں کوگواہ بنایا توان کوخدا کی طرح حاضر ناظر مانا لہٰذا یہ مشرک ہوگیا۔ اگرداہنے یابائیں ہاتھ کے کاتب اعمال فرشتوں کوگواہ بنایا تواس سے مشرک نہیں ہوا۔اس لئے کہ وہ ہروقت اورہرجگہ اس کے ساتھ موجود رہتے ہیں۔ خدا ئے پاک کی طرف سے مسلط ہیں۔ دوسرے کسی فرشتہ کی یہ شان نہیں۔ تونکاح دونوں صورتوں میں نہیں ہوا۔فقط واللہ سبحانہٗ تعالیٰ اعلم

        حررہٗ العبد محمو دغفرلہٗ دارالعلوم دیوبند ۶؍ ۹؍  ۹۲ھ؁

خدا ورسول کوگواہ بناکر نکاح

سوال:-زید ایک بیوہ عورت کو لے کر وطن سے دوسری جگہ دور چلاگیا اوروہاں پہنچ کر بیوہ عورت نے زید سے راضی خوشی میں کہاکہ میں بعوض ۳۰۰؍ روپیہ مہر پر آپ کے نکاح میں آنا منظور کرتی ہوں۔ زید نے خدا اور رسول کوگواہ قراردے کر بعوض ۳۰۰؍ روپیہ مہرپر بیوہ عورت کوقبول کیا۔(منظور کرلیا) نکاح کے وقت زید اور بیوہ عورت ان دونوں فرد کے سوا اور دوسرا کوئی فرد نہیں تھا اوردونوں ساتھ میاں بیوں کی طرح رہنے لگے۔ کچھ عرصہ بعد ا س سے بچہ پیدا ہوا۔ بچے کوحلالی قراردیاجائے گا یاحرامی؟ زید کانکاح ہوا یانہیں؟ قرآن وحدیث کے حوالہ سے جواب سے مطلع فرمائیں۔

الجواب حامداًومصلیاً

اس طرح نکاح کرنے سے نکاح نہیں ہوتا۔ انعقاد نکاح کے لئے دومردوں یاایک مرد اوردوعورتوں کامجلس عقد میں بطورگواہ ایجاب وقبول سننا ضروری ہے۔ ۱؂   تنہائی میں نکاح نہیں ہوتا ۔ خدا اور رسول کوگواہ بناکرنکاح کرنے سے ایک قول پرایمان سلامت نہیں رہتا۔ کتب فقہ فتاویٰ قاضی خان وغیرہ میں لکھاہے کہ اس طرح نکاح کرنے سے آدمی ایمان سے خارج ہوجاتاہے۔ کیونکہ اس نے خدائے پاک کی طرح حضرت نبی اکرم ﷺ کی ذات مقدسہ کوبھی ایسے نکاح سے جواولاد پیدا ہو، اس کے ثابت النسب اورغیرثابت النسب ہونے کوکیا دریافت کرتے ہیں۔ اس مرد اورعورت کوسچی توبہ کراکے کلمہ پڑھاکر مسلمان کیاجائے۔

رَجُلٌ تَزَوَّجَ اِمْراَۃً بِشَہَادَۃِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِه کَانَ بَاطِلاً لَقَوْلِه صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْه وَسَلَّمَ لَانِکَاحَ اِلاَّ بِشُهودٍ وَکُلُّ نِکَاحٍ یکُوْنُ بِشَهادَۃِ اللّٰہِ وَرَسُولِه وَبَعْضُهمْ جَعَلُوْا ذٰلِکَ کُفْراً لانَّه یعتقداَنَّ الرَّسُوْلَ صَلَّی اللّٰہُ علیه وسلَّم یعلم الغیبَ وهو کُفرٌ۱؂ ماکان فی کونه کفراً اختلاف فان قائله یؤمربتجدید النکاح وبالتوبةوالرجوع عن ذٰلک بطریقِ الاحتیاط."

اس کے بعد گواہوں کے سامنے باقاعدہ نکاح کرایا جائے اورجواولاد پہلے نکاح سے پیدا ہوچکی ہے اس کواولادِ زناکہنے سے بھی احتیاط کی جائے یہی صورت احوط ہے۔     فقط واللہ سبحانہٗ تعالیٰ اعلم   حررہٗ العبد محمودغفرلہٗ دارالعلوم دیوبند۔ "

(کتاب النکاح،  ج: 10،  ص:613-616،  ط: دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144507100076

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں