بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

پہلی بیوی کا شوہرسے دوسری بیوی کو طلاق دینے کا مطالبہ کرنا کیساہے؟


سوال

 معاشرے میں اگر کوئی شخص دوسری شادی کر لیتا ہے تو اس کی پہلی بیوی ہر ممکن سازش، دھونس، دھمکی، اور اگر اس کا میکہ طاقتور ہو تو اپنے میکے کی طاقت کی مدد سے دوسری بیوی کو طلاق دلوا کر رہتی ہے،کیا ایسا کرنا شریعت میں جائز ہے؟ اگر نہیں تو یہ کس زمرے میں آئےگا؟

جواب

 شرعاً ایک سے زائد نکاح کی اجازت اس شخص کو ہے کہ جو  ایک سے زائد بیویوں کے درمیان   جسمانی ومالی  حقوق(نان ،نفقہ، لباس اور شب باشی  )کی ادائیگی کے ساتھ ان میں برابری کی قدرت رکھتاہواور  ایک سے زائد نکاح  کے لیے پہلی بیوی کی اجازت یا رضامندی شرعاً لازمی اور  ضروری نہیں ہے ،تاہم  پہلی بیوی کو اعتماد میں لے لینا بہتر ہے تاکہ بعد میں جھگڑا اور فساد پیدا نہ ہو، البتہ  اگر کوئی شخص  جسمانی ومالی حقوق کی ادائیگی کے ساتھ  ساتھ  برابری پر قاد ر ہونے کی صورت میں دوسری شادی کرلے تو پہلی بیوی  کاشوہر سے دوسری  بیوی کوطلاق  دینےکا مطالبہ کرنایا اپنے میکے کے ذریعہ طلاق دلوانے کی کوشش کرنا  ناجائز  اور حرام ہے،حضور ﷺ کا ارشاد ہے : ”کسی عورت کے لیے اپنی مسلمان بہن (یعنی سوکن) کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے تاکہ اس کا حصہ بھی اس کو مل جائے حالانکہ اس کو وہی ملے گا جو اس کا حصہ ہے۔“اورشوہر پر بھی اس طرح کے ناجائز مطالبات کو پورا کرنا لازم نہیں ،بلکہ شریعت کے حکم کو مد نظر رکھتے ہوئے دونوں کو نکاح میں برقرار رکھتے ہوئے  انصاف کا معاملہ کرے اور دونوں کے حقوق کا خیال رکھے،  ورنہ قیامت کے دن اس  حال میں آئے گاکہ اس کا ایک طرف جھکا ہوا ہوگا  ۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن أبي هريرة رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا يحل لامرأة تسأل طلاق أختها، لتستفرغ صحفتها، فإنما لها ما قدر لها»".

(کتاب النکاح، باب الشروط التي لا تحل في النكاح، رقم الحدیث: 5152، ج: 7، ص: 20، ط: دارطوق النجاۃ)

ترجمہ: ”حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:کسی عورت کے لیے اپنی مسلمان بہن (یعنی سوکن) کی طلاق کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے تاکہ اس کا حصہ بھی اس کو مل جائے حالانکہ اس کو وہی ملے گا جو اس کا حصہ ہے۔“

وفيه ايضاً:

"وعن النواس بن سمعان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:لا ‌طاعة لمخلوق في معصية الخالق. رواه في شرح السنة."

(‌‌كتاب الإمارة والقضاء، ‌‌الفصل الثاني، 1092/2، ط: المكتب الإسلامي - بيروت)

ترجمہ: ”حضرت نواس بن سمعان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ کی معصیت میں مخلوق کی اطاعت لازم نہیں۔“(مظاہر حق)

سنن ابی داؤد ميں  ہے:

" عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: من كانت له ‌امرأتان فمال إلى إحداهما جاء يوم القيامة وشقه مائل."

(كتاب النكاح، ‌‌باب: في القسم بين النساء، ج: 2، ص: 243 ، ط: المكتبة العصرية)

ترجمہ  :”رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے: جس کی دو بیویاں  ہوں،پس وہ  ان میں سے ایک جانب   جھک جائے ،تو قیامت کے دن اس  حال میں آئے گاکہ اس کا ایک طرف جھکا ہوا ہوگا۔“

فتاوی شامی میں ہے:

"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض نهر (أن يعدل) أي أن لا يجور (فيه) أي في القسم بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول) والصحبة (لا في المجامعة) كالمحبة بل يستحب.

(قوله وظاهر الآية أنه فرض) فإن قوله تعالى {فإن خفتم ألا تعدلوا فواحدة} [النساء: 3] أمر بالاقتصار على الواحدة عند خوف الجور، فيحتمل أنه للوجوب، فيعلم إيجاب العدل عند تعددهن كما قاله في الفتح."

(كتاب النكاح، باب القسم بين الزوجات، ج: 3، ص: 201، ط: دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144605101379

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں