بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1446ھ 20 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

پینشن اور گریجویٹی میں میراث کا حکم


سوال

 میرے بہنوئی کا کچھ عرصہ پہلے انتقال ہو گیا تھا، وہ گورنمنٹ ملازمت کرتے تھے، ان کا انتقال ریٹائرمنٹ کے فورا بعد ہو گیا تھا اور اس وقت تک ان کی پینشن ملنے کا کام مکمل نہیں ہوا تھا، ان کے انتقال کےبعد یہ کام میری بہن کی پینشن میں تبدیل ہو گیا، ریٹائرمنٹ کے بعد 2 چیزیں ملتی ہیں ایک تو ماہانہ پینشن اور دوسری پوری سروس کی گریجویٹی، اب میرا بھانجا اپنی ماں سے کہہ رہا ہے کہ اس گریجویٹی میں ساری اولاد (بیٹے اور بیٹیوں) کا حصہ ہے، مگر میری بہن اس کو وراثت کا حصہ نہیں مان رہی، برائے مہربانی دین کی روشنی میں اس مسئلے کہ بارے میں راہ نمائی فرمائیں؟

جواب

واضح رہے کہ  حکومتی ملازم  جب ریٹائر ڈ ہوتا ہے  تو اس کو گریجویٹی اور پینشن کے نام سے کچھ رقم بطورِ مراعات ملتی ہے ،یہ رقم تنخواہ کا حصہ نہیں ہوتی،بلکہ  ادارہ کی طرف سے ملازم کے لیے  انعام و عطیہ ہوتی ہے، یہ رقم  ریٹائرمنٹ کے وقت سے ہی دو حصوں میں تقسیم  کر دی جاتی ہے،اس میں سےکچھ  رقم فوراً  ملازم کو دے دی جاتی ہے جسے" گریجویٹی"  کہا جاتا ہے اور وہ ملازم کی ملکیت ہی شمار کی جاتی ہےاورملازم کی وفات کےبعداس کی  وراثت میں تقسیم ہوتی ہے، لیکن اگر مذکورہ رقم ادارہ کی طرف سے   ملازم کی وفات کے بعد ملی تو ایسی صورت میں  ادارہ یہ رقم  جس شخص کو دے وہی اس کا حق دار ہوتا ہے،یہ وراثت میں تقسیم نہیں ہوتی ہے۔

لہذا صورت ِ مسئولہ میں   سائل کے بہنوئی کو ان کی زندگی میں گریجویٹی    کی رقم نہیں دی گئی اور اب ان کا انتقال ہوچکا ہے تو پنشن اور گریجویٹی کی رقم دونوں حکومت جس کے نام پر جاری کرے  وہی اس کا مالک شمار ہوگا، اگر حکومت نے سائل کی بہن کے نام پر جاری کیا ہے تو سائل کی بہن  اس کی مالک ہے ، یہ مرحوم کی وراثت میں شامل نہیں ہوگی اور ان کے بچوں کا اس میں شرعاً حصہ نہیں ہوگا ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"لأن الإرث إنما يجري في المتروك من ملك أو حق للمورث على ما قال «- عليه الصلاة والسلام - من ترك مالا أو حقا فهو لورثته»ولم يوجد شيء من ذلك فلا يورث ولا يجري فيه التداخل؛ لما ذكرنا، والله سبحانه وتعالى أعلم."

(کتاب الحدود، فصل فی شرائط جواز اقامة الحدود، ج:7 ص: 57 ط: دار الکتب العلمیة)

امداد الفتاوی میں ہے:

"چوں کہ میراث مملوکہ اموال میں جاری ہوتی ہے اور یہ وظیفہ محض تبرع واحسانِ سرکار ہے، بدون قبضہ کے مملوک نہیں ہوتا، لہذا آئندہ جو وظیفہ ملے گا اس میں میراث جاری نہیں ہوگی، سرکار کو اختیار ہے جس طرح چاہیں تقسیم کردے۔"

( کتاب الفرائض، عنوان: عدم جریان میراث در وظیفہ سرکاری تنخواہ، ج:4 ص:343  ط: دارالعلوم)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144604101687

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں