بلڈر نے پلاٹنگ کی، اس کے حوالہ سے اپنے پروجیکٹ کی زمین دکھا دی، اور اس کے لیے ابھی تک نہ مجوزہ نقشہ سامنے لایا ہے اور نہ ہی کوئی منظور شدہ نقشہ، اور سب کو یہ کہتا ہے کہ اسی قطع اراضی میں آپ کا پلاٹ ہے۔
زمین کا سودا اس بلڈر نے کر لیا ہے، زبانی کلامی یہ بات سامنے ہے، الاٹیز کے سامنے یہ بات نہیں آئی، البتہ بلڈر کی شہرت بھی اچھی ہے۔
اب اس صورت میں الاٹی کے پاس ایک الاٹ منٹ آرڈر ہوتا ہے، اور ایڈوانس اور قسطوں کی رسیدیں ہوتی ہیں، اب ایسی صورت میں جس میں مجوزہ نقشہ یا دونوں ہی نہ ہوں تو اس صورت میں ایسی فائل کی خرید و فروخت کا شرعًا کیا حکم ہے؟
اگر کوئی بلڈر زمین کا کوئی رقبہ خرید کر اس میں پلاٹنگ کرتا ہے، پھر خریدار کو ثبوت کے طور پر بیع نامہ اور دیگر دستاویزات دیتا ہے، جس کو عرفِ عام میں "فائل" کہا جاتا ہے تو اِس فائل کی خرید و فروخت کا حکم یہ ہے کہ اگر نقشہ بنا لیا گیا ہو اور نقشہ میں پلاٹوں کی تعیین ہو چکی ہو تو اِس صورت میں اس پلاٹ کی خرید و فروخت جائز ہو گی ،اور اگر پلاٹوں کی تعیین نہیں ہوئی تو خرید و فروخت اُس وقت جائز ہو گی جب سودا کرتے وقت یہ کہا جائے کہ اس رقبہ اراضی میں سے اتنا حصہ فروخت کر دیا یا ان پلاٹوں میں سے ایک پلاٹ فروخت کر دیا۔ لیکن خریدار یہ پلاٹ اُس وقت تک آگے فروخت نہیں کر سکتا جب تک پلاٹوں کی تعیین نہ ہو جائے؛ کیوں کہ اس قطعہ اراضی میں سے اُس کے لیے پلاٹ حوالہ کرنا ممکن نہیں ہو گا۔
مجلة الأحكام العدلية میں ہے:
«(المادة 198) : يلزم أن يكون المبيع مقدور التسليم۔
(المادة 200) : يلزم أن يكون المبيع معلوما عند المشتري۔
(المادة 203) : يكفي كون المبيع معلوما عند المشتري فلا حاجة إلى وصفه وتعريفه بوجه آخر۔»
(الکتاب الاول فی البیوع، الباب الثاني: في بيان المسائل المتعلقة بالمبيع، الفصل الأول: في حق شروط المبيع وأوصافه، ص:41، ط: نور محمد)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
«ومنها أن يكون المبيع معلوما والثمن معلوما علما يمنع من المنازعة فبيع المجهول جهالة تفضي إليها غير صحيح كبيع شاة من هذا القطيع وبيع شيء بقيمته وبحكم فلان»
(کتاب البیوع، الباب الأول في تعريف البيع وركنه وشرطه وحكمه وأنواعه، ج:3، ص:3، ط: رشیدیہ)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100390
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن