میں ایک پلاٹ کا مالک ہوں، اس کی قیمت تقریباً پندرہ لاکھ روپے ہے، کبھی اس پہ مکان بنانے کا ارادہ کرتا ہوں، اور کبھی بیچنے کا ارادہ کرتا ہوں، وسائل کے نہ ہونے کی وجہ سے مکان بنانا مستقبل قریب میں تو مشکل ہے اور مستقبل قریب میں بیچ بھی نہیں سکتا، پوچھنا یہ ہے کہ کیا اس پلاٹ پر زکاۃ ہے یانہیں؟
واضح رہے کہ پلاٹ پر زکاۃ کے وجوب سے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جو پلاٹ بیچنے کی نیت سے خریدا جائے اُس پر زکاۃ واجب ہوتی ہے اور جو پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا جائے اُس پر زکاۃ واجب نہیں ہوتی، اگر کوئی پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا جائے پھر بعد میں اُس کو بیچنے کا ارادہ ہو جائے تو محض بیچنے کے ارادے سے اُس کی رقم پر زکاۃ واجب نہ ہو گی، بلکہ جب اُس کو بیچ دیا جائے پھر اُس کی رقم پر زکاۃ کے ضابطے کے مطابق زکاۃ واجب ہو گی، اسی طرح اگر پلاٹ خریدتے وقت تو بیچنے کی نیت ہو، لیکن پھر رہائش کی نیت کرلی جائے تو وہ پلاٹ مالِ تجارت نہیں رہے گا، اس کے بعد اگر بیچنے کی نیت ہو تو صرف نیت سے وہ مالِ تجارت نہیں بنے گا، بلکہ جس وقت بیچا جائے گا، اس وقت زکاۃ کے ضابطے کے مطابق زکاۃ واجب ہوگی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر پلاٹ رہائش کی نیت سے خریدا گیا ہے اُس پر زکاۃ واجب نہیں ہے اور اگر تجارت کی نیت سے خریدا تھا لیکن بعد میں اس میں رہائش کی نیت ہوگئی تو اس صورت میں بھی اس پر زکاۃ نہیں ہے۔
الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (2 / 272):
"(وما اشتراه لها) أي للتجارة (كان لها) لمقارنة النية لعقد التجارة (لا ما ورثه ونواه لها) لعدم العقد إلا إذا تصرف فيه أي ناويا فتجب الزكاة لاقتران النية بالعمل". فقط و الله أعلم
فتوی نمبر : 144108201952
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن