بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 ذو الحجة 1445ھ 01 جولائی 2024 ء

دارالافتاء

 

پلاٹ میں شراکت


سوال

 میں پاکستان آرمی سے ریٹائرڈ افسر ہوں ،  آج سے کوئی 10، 11سال پہلے ڈی۔ایچ۔اے۔ سٹی کراچی لانچ ہوا تھا،  اس وقت میں سروس پہ تھا ، یہ چوں کہ  آرمی کا  پروجیکٹ تھا تو میں اپلائی کرنا چاہتا تھا، لیکن میرے پاس ڈاؤن پیمنٹ کے پیسے نہیں تھے ،   میرے ایک دوست نے کہا  کہ میں پیسے دیتا ہوں تم اپلائی کردو ،   اگر پلاٹ نکل آیا تو اس کا منافع ہم 50/50 کرلیں گے ،  میں نے اس پلاٹ کے  لیے ایک سویلین کے طور پر اپلائی کردیا، جو وہ خود بھی کرسکتا تھا ،  میرا پلاٹ نکل آیا ،  اس پلاٹ کے سارے پیسے میرے دوست نے  دیے تھے، کچھ قسطیں میں نے بھی دیں،  لیکن وہ پیسے  پھر   مجھے وہ واپس کر دیتا تھا ،  یہ پلاٹ ابھی تک میرے نام پہ ہے،  اور ایف۔بی۔آر۔ میں رجسٹرڈ ہے ۔

میرا سوال یہ ہے کیا اس پلاٹ کے منافع میں میرا 50 فیصد بنتا ہے یا نہیں ،  جس طرح میرے دوست نے وعدہ کیا تھا ؟   اگر وہ مجھے صرف 10 یا 20 فیصد دینے پہ راضی ہو گا تو میں کیا کروں ؟ اور کیا وہ 10 یا 20 فیصد بھی میرے  لیے لینا جائز اور حلال ہوگا ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں مذکورہ پلاٹ اگر حاضر سروس  افسر کے  لیے مختص نہ تھا،  سویلین بھی خریدنے کے حق دار تھے  ( جیساکہ سوال میں مذکور ہے) تو اس صورت میں اگر آپ کے دوست نے محض آپ کے نام سے مذکورہ پلاٹ خریدا تھا، اور تمام اقساط کی ادائیگی کے  لیے رقم اس ہی نے  فراہم کی ( جیساکہ سائل نے تحریر کیا ہے)   اور اس نے مذکورہ پلاٹ سائل کے  لیے نہیں، بلکہ اپنے  لیے خریدا تھا تو ایسی صورت میں مذکورہ پلاٹ کا مالک شرعاً سائل کا مذکورہ دوست ہوگا، اور اس پلاٹ کی اقساط کی ادائیگی میں سائل کی رقم شامل نہ ہونے کی وجہ سے  سائل اس پلاٹ میں شریک نہ ہوگا، اور  شراکت کی بنیاد پر  اس پلاٹ کے 50 فیصد منافع کا حق دار بھی نہیں ہوگا۔ البتہ اگر مذکورہ پلاٹ مذکورہ دوست نے اپنے اور سائل کے  لیے ہی خریدا ہو تو اس صورت میں یہ دونوں کے درمیان مشتر ک ہوگا، اور حسبِ شرکت دونوں منافع کے حق دار ہوں گے۔

پہلی صورت میں سائل کو  منافع  کے حوالے سے مطالبہ کا حق نہ ہوگا، البتہ اگر مذکورہ دوست اپنی مرضی سے بغیر کسی جبر اور اکراہ کے سائل کو کچھ دیتا ہے ( خواہ 10 یا 20 یا 50 فیصد دے)  تو یہ اس کی جانب سے تبرع و احسان ہوگا۔

نیز مذکورہ پلاٹ کا پراپرٹی ٹیکس مذکورہ دوست کی اجازت سے آپ ادا کر رہے  ہیں، تو اس کے مطالبہ کا آپ کو حق ہوگا، البتہ اگر اسے مطلع  کیے بغیر خود ہی بھرتے آرہے ہیں، تو اب تک جتنا ٹیکس بھرا ہے وہ آپ کی جانب سے تبرع شمار ہوگا، جس کے مطالبہ کا حق نہ ہوگا، ہاں اگر وہ از خود دے دیتا ہے تو آپ وصول کرسکتے ہیں۔ نیز آئندہ کے  لیے آپ ٹیکس کی ادائیگی کے  لیے دوست سے رقم کی فراہمی کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔

العقود الدرية في تنقيح الفتاوى الحامديةمیں ہے:

(سئل) في امرأة قضت دين رجل لدائنه بغير أمر الرجل وتريد الرجوع على الدائن فهل ليس لها ذلك؟

(الجواب) : نعم ومن قضى دين غيره بأمره أو بغير أمره يخرج المقضي به عن ملك القاضي إلى ملك المقضي له من غير أن يدخل في ملك المقضي عنه ألا يرى أن قضاء القاضي عن الميت صحيح مع أن الميت ليس من أهل الملك ابتداء ذخيرة من كتاب المداينات من الفصل الثاني وفي العمادية من أحكام السفل والعلو المتبرع لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره. اهـ."

( كتاب المداينات، ٢ / ٢٢٦، ط: دار المعرفة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201212

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں