ایک خاتون نے چند سال پہلے رقم محفوظ کرنے کی نیت سے ایک پلاٹ خریدا ،چار لاکھ کا خریدااور آج اس کی قیمت تقریبًا دوگنی کے قریب ہے۔کیا اس پلاٹ کی وجہ سے قربانی واجب ہوگی؟
گھریلو مسائل اور مالی حالات کی تفصیل یہ ہے کہ خاتون مذکورہ بیوہ اور دوبچوں کی ماں ہے،کرائے کے مکان میں رہتی ہے ،گھر کا کرایہ اور اس کے علاوہ کھانے پینے کے اخراجات کا ذمہ ایک شخص نے لے رکھا ہے ،مذکورہ پلاٹ کے علاوہ کوئی زیور وغیرہ نہیں ہے،پلاٹ کے ساتھ کتنی نقدی ہونے کی صورت میں قربانی واجب ہوگی؟
پلاٹ پر قربانی کے وجوب کی صورت میں درج ذیل مسائل کے جواب عنایت فرمائیں:
1.گزشتہ سالوں اور موجودہ سال کی قربانی کی رقم کی ادائیگی کس اعتبار سے ہوگی؟
2.کیا قربانی کی رقم بھی ان افراد کو دی جاسکتی ہے جن کو زکاۃ دینا جائز ہے ؟
3. کیا ایک قربانی کی رقم ایک سے زائد افراد کو دینا اسی طرح کئی قربانیوں کی ر قم ایک شخص کو دینا جائز ہے؟
وضاحت :
گھر کا کرایہ اور دیگر اخراجات جو شخص دے رہاہے وہ اس خاتون کا سابقہ شوہر ہے ،یہ شخص اپنے بچوں کی وجہ سے کرایہ اور دیگر اخراجات دے رہا ہے۔
خاتون کراچی میں کرایہ کے گھر میں رہتی ہے اور پلاٹ منگھوپیر میں ہے ،یہ پلاٹ مستقبل میں تعمیر کرکے رہائش اختیار کرنے کی نیت سے نہیں لیا ہے ،رہائش کراچی میں ہی رکھیں گے،صرف پیسے محفوظ کرنے کی نیت سے لیا ہے۔
صورتِ مسئولہ میں چوں کہ مذکورہ پلاٹ رقم محفوظ کرنے کی نیت سے خریدا گیا ہے اور خاتون کی بنیادی ضروریات اس پلاٹ کے علاوہ دیگر ذرائع سے پوری ہوجاتی ہیں، لہذا یہ پلاٹ ابھی خاتون کی ضروریات سے زائد ہے، لہذا اس پلاٹ کی وجہ سے قربانی واجب ہے، اگرچہ اس پلاٹ کے ساتھ خاتون کی ملکیت میں نقد رقم زیادہ نہ ہو یا بالکل نہ ہو۔
جب سے مذکورہ پلاٹ خاتون کی ملکیت میں ہے تو اس سال سے خاتون پر قربانی واجب تھی، لہذا اگر قربانی نہیں کی تو ہر سال کی قربانی کی جگہ اب ایک متوسط بکرے /بکری کی قیمت صدقہ کرنا واجب ہے ،بعض حضرات کے نزدیک بڑے جانور کے ساتویں حصہ کے بقدر رقم صدقہ کرنا بھی کافی ہے۔نیز:
1. جس دن رقم صدقہ کی جارہی ہےاس دن کی قیمت کا اعتبار ہوگا ، یہ حکم گزشتہ اور موجودہ سال سب کی قربانی کے لیے ہے۔
2. قضا قربانی کی رقم زکات کے مستحق کو دینا ضروری ہے۔
3.ایک سال کی قربانی کی رقم ایک سے زائد فقراء کو دینا صحیح ہے،اسی طرح کئی سالوں کی قربانی کی رقم ایک فقیر کو دینا بھی درست ہے۔
البتہ ایک فقیر کو اتنی رقم کا مالک نہ بنایا جائے کہ وہ صاحب نصاب بن جائےیہ مکروہ ہے،ہاں اگر اس کی کوئی ضرورت ہو، یا وہ زیادہ اہل و عیال والا ہو کہ اہل وعیال پر یہ مال تقسیم کرے اور ہر ایک کے حصے میں نصاب سے کم مال آئے تو بلا کراہت ایسا کرنا جائز ہے۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة ... والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من سائمة أو رقيق أو خيل أو متاع لتجارة أو غيرها فإنه يعتد به من يساره."
( كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، 5 / 292، ط: دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے :
"و شرائطها الإسلام والإقامة و الیسار الذي یتعلق به وجوب ( صدقة الفطر ) ... (لا الذکورۃ فتجب علی الأنثى)."
(قوله: و شرائطها) أي شرائط وجوبھا، ولم یذکر الحریة ... و لا العقل والبلوغ لما فیھما من الخلاف ... (قوله: والیسار) بأن ملك مائتي درهم أو عرضًا یساویها غیر مسکنه و ثیاب اللبس أو متاع یحتاجه إلى أن یذبح الأضحیة و لو له عقار یستغله فقیل: تلزم لو قیمته نصابًا ... فمتى فضل نصاب تلزمه و لو العقار وقفًا، فإن واجب له فی أیامھا نصاب تلزم و صاحب الثیاب الأربعة لو ساوی الرابع نصابًا غنی و ثلاثة فلا، والمرأۃ موسرۃ بالمعجل لو الزوج ملیًّا وبالمؤجل لا."
(رد المحتار ، كتاب الأضحية، ج:6، ص:312)
المبسوط للسرخسی میں ہے :
"وأما بعد مضي أيام النحر فقد سقط معنى التقرب بإراقة الدم؛ لأنها لا تكون قربة إلا في مكان مخصوص وهو الحرم، وفي زمان مخصوص وهو أيام النحر.
ولكن يلزمه التصدق بقيمة الأضحية إذا كان ممن تجب عليه الأضحية؛ لأن تقربه في أيام النحر كان باعتبار المالية فيبقى بعد مضيها والتقرب بالمال في غير أيام النحر يكون بالتصدق، ولأنه كان يتقرب بسببين إراقة الدم والتصدق باللحم، وقد عجز عن أحدهما وهو قادر على الآخر فيأتي بما يقدر عليه."
(باب الاضحیۃ،ج:12،ص:14،دارالمعرفۃ)
فتاوی شامی میں ہے:
"مصرف الزكاة والعشر، وأما خمس المعدن فمصرفه كالغنائم (هو فقير، وهو من له أدنى شيء) أي دون نصاب أو قدر نصاب غير نام مستغرق في الحاجة.
قوله: أي مصرف الزكاة والعشر) يشير إلى وجه مناسبته هنا، والمراد بالعشر ما ينسب إليه كما مر فيشمل العشر ونصفه المأخوذين من أرض المسلم وربعه المأخوذ منه إذا مر على العاشر أفاده ح. وهو مصرف أيضا لصدقة الفطر والكفارة والنذر وغير ذلك من الصدقات الواجبة كما في القهستاني."
(کتاب الزکاۃ،باب المصرف،2/ 339،ط:سعید)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"والدفع إلى الواحد أفضل إذا لم يكن المدفوع نصابا كذا في الزاهدي ويكره أن يدفع إلى رجل مائتي درهم فصاعدا، وإن دفعه جاز كذا في الهداية. هذا إذا لم يكن الفقير مديونا فإن كان مديونا فدفع إليه مقدار ما لو قضى به دينه لا يبقى له شيء أو يبقى دون المائتين لا بأس به، وكذا لو كان معيلا جاز أن يعطى له مقدار ما لو وزع على عياله يصيب كل واحد منهم دون المائتين كذا في فتاوى قاضي خان وندب الإغناء عن السؤال في ذلك اليوم كذا في التبيين."
(كتاب الزكات، ج:1، ص:188، ط:دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144601101280
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن