بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1446ھ 18 اپریل 2025 ء

دارالافتاء

 

ملکیت میں پلاٹ ہونے کی صورت میں زکات لینے کا حکم


سوال

زکاۃ لینے کے متعلق سوال ہے کہ میرا یہاں بنارس میں ایک گھر ہے ،جو میری  ضروریات کے لئے کافی نہیں، اس لیے میں نے ایک اور جگہ چار بلاٹس خریدے ہیں، ان میں سے دو پر اپنی ضرورت کے مطابق گھر بنائے ہیں، اور بقیہ دو پر بھی بچوں کے لیےگھر بنانے کا ارادہ ہے،  لیکن ابھی گنجائش نہیں، اسی طرح میرے گاؤں میں بھی میری کچھ زمینیں ہیں، جو کہ فارغ ہیں، اس سےسالانہ بہت کم پیسےآتے ہیں، مثلاً ایک دو ہزار  روپے مجھے ملتے ہیں، نیز مجھ پر دس  بارہ لاکھ روپے قرضہ بھی ہے،  اور جب نئے گھر  میں منتقل ہوں گے تو بنارس والے گھر کوکرایہ پر دیں گے ،لیکن گھر کےاخراجات پھر بھی  پورے نہیں ہوں گے اب پوچھنا یہ ہے کہ :

 1- میرے ليیے زکاۃ لینے کا کیا حکم ہے ؟

2- اور قربانی مجھ پر واجب ہوگی یا نہیں؟اگر قربانی واجب ہوگی تو مجھے قرضہ لےکر کرنی ہوگی، کیوں کہ میں بہت مقروض ہوں اور گھر کے اخراجات بہت ہیں ۔

جواب

1، 2۔ صورتِ مسئولہ میں سائل  کی ملکیت میں موجودمذکورہ دو پلاٹس ضرورت سے زائد  ہیں نیز  گاوں میں بھی کچھ زمینیں ہیں جو فارغ ہیں،اور یہ تمام زمینیں ضرورت سے زائد اور نصاب   کے بقدر ہیں ،لہذا سائل کا  زکات لینا جائز نہیں۔ 

 اگر  سائل کا یہ مذکورہ پلاٹ فی الحال اس کے استعمال اور ضرورت میں نہیں ہے،تو یہ پلاٹ اضافی شمار ہوگا یہ قربانی کے نصاب میں شامل ہوگا، اس کی قیمت لگانے اور دوسری نصاب کی چیزوں کا حساب کرنے  کے بعد اس میں سے قرض منہا کرنے کے بعد اگر ساڑھے باون تولہ چاندی کی مالیت کے بقدر  رقم بچتی ہو تو سائل پر قربانی واجب ہوگی۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"لا يجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضا للتجارة أو لغير التجارة فاضلا عن حاجته في جميع السنة هكذا في الزاهدي والشرط أن يكون فاضلا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، ولا يشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحا مكتسبا كذا في الزاهدي. وكذا لو كان له حوانيت أو دار غلة تساوي ثلاثة آلاف درهم وغلتها لا تكفي لقوته وقوت عياله يجوز صرف الزكاة إليه في قول محمد رحمه الله تعالى، ولو كان له ضيعة تساوي ثلاثة آلاف، ولا تخرج ما يكفي له ولعياله اختلفوا فيه قال محمد بن مقاتل يجوز له أخذ الزكاة".

( كتاب الزكاة، الباب السابع في المصارف، ١ / ١٨٩، ط: دار الفكر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما) (شرائط الوجوب) : منها اليسار وهو ما يتعلق به وجوب صدقة الفطر دون ما يتعلق به وجوب الزكاة ... والموسر في ظاهر الرواية من له مائتا درهم أو عشرون دينارا أو شيء يبلغ ذلك سوى مسكنه ومتاع مسكنه ومركوبه وخادمه في حاجته التي لا يستغني عنها، فأما ما عدا ذلك من سائمة أو رقيق أو خيل أو متاع لتجارة أو غيرها فإنه يعتد به من يساره."

( كتاب الأضحية، الباب الأول في تفسير الأضحية وركنها وصفتها وشرائطها وحكمها، ٥ / ٢٩٢، ط: دار الفكر)

 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144608101951

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں