بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 ذو الحجة 1445ھ 30 جون 2024 ء

دارالافتاء

 

پوتے کے لیے ہبہ کرنا


سوال

 ہم تین بھائی  اور   ایک بہن ہیں ، 1978 میں جب ہمارے  بڑے بھائی آٹھ سال کے تھے ،  میرے والد صاحب کا انتقال ہو گیا تھا، جب کہ ہمارے دادا 1996 تک زندہ رہے، والد صاحب کی وفات کے کافی عرصہ بعد جب ہمارے بڑے بھائی کا ابھی لڑکپن اور باقی کا بچپن چل رہا تھا ، دادا جی نے ہم تین بھائیوں کو جائیداد میں سے زمین (بقدر حصہ والد) ہبہ کر دی تھی، اب جب کہ ہم سبھی بہن بھائی اللّٰہ کے فضل سے خوشحال زندگی گزار رہے ہیں ،مجھے خیال آتا ہے ،کہ بہن کو جائیداد میں حصہ کیوں نہیں ملا؟ بہن اپنی خوشحالی اور روایات کی بدولت جائیداد میں سے حصہ لینے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی بلکہ انکار کرتی ہے، بڑے بھائی کا موقف ہے، کہ ہمیں وراثتی جائیداد والد سے نہیں ملی  ، بلکہ ہبہ (گفٹ ،بطورتحفہ) ملا ہوا ہے، بہن کا تحفہ شدہ زمین میں حصہ نہیں بنتا،یہ ہبہ دینے والی کی مرضی تھی ،کہ وہ جسے چاہتا تحفہ دیتا،اب سوال یہ ہے، کہ بہن کا حصہ ہماری زمین میں بنتا ہے یا نہیں؟ کیا موجودہ صورت میں ہماری زمین ہمارے لیے حلال ہے ،یا نہیں؟

جواب

صورت مسؤلہ میں سائل کا بیان اگر واقعتا صحیح ہے،کہ دادا نے اپنی ملکیتی جائیدادمیں سے مذکورہ جائیداد بطور ہبہ سائل اور اس کے دونوں بھائیوں (اپنے  نابالغ پوتوں) کو دیدی  تھی،   تو اس    صورت میں سائل اور اس کے دونوں بھائی اپنے اپنے حصہ کی زمین کے مالک بن گئے تھے،کیونکہ دادا کا اپنے پوتوں کو اپنی ملکیتی زمین میں سے جو کچھ زمین دی گئی تھی وہ ان کے حق میں ہبہ تھا،البتہ دادا کو چاہیے تھا،کہ وہ اپنی پوتی کو بھی کچھ دیتا،بہر حال سائل اور اس کے دونوں بھائیوں کے حق میں دادا کی طرف سے مذکورہ  زمین کی تقسیم ہبہ تھی،اس زمین میں سائل کی مذکورہ بہن کا شرعی حصہ نہیں ہے،البتہ اگر تینوں بھائی خوشی سے اپنی بہن  کو کچھ دے دیں تو یہ احسان اور باعث اجر وثواب ہوگا،دادا کا اپنے نابالغ پوتوں کو دینا ہی کافی ہےاگرچہ قبضہ دادا کے پاس ہو۔

درر الحکام شرح مجلة الأحكام میں  ہے:

‌"كل ‌يتصرف ‌في ‌ملكه ‌المستقل ‌كيفما ‌شاء أي أنه يتصرف كما يريد باختياره أي لا يجوز منعه من التصرف من قبل أي أحد هذا إذا لم يكن في ذلك ضرر فاحش للغير."

(الكتاب العاشر الشركات،الباب الثالث في بيان المسائل المتعلقة بالحيطان والجيران،الفصل الأول في بيان بعض القواعد المتعلقة بأحكام الأملاك،المادة 1192،ج201/3،ط ،دار الجيل)

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي التلويح أيضا من بحث القضاء: والتحقيق أن المنفعة ملك لا مال؛ لأن الملك ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص."

(کتاب البیوع ،مطلب فی الملک والمال والتقوم ،502/4 ط: سعید)

 درر الحکام شرح مجلة الأحكاممیں  ہے:

 "رجل تصدق على ابنه الصغير بدار والأب ساكنها جاز وعليه الفتوى (الهندية باختصار) .الحكم الثاني: إذا كان الموهوب في يد الواهب أو وديعة في يد آخر فلا حاجة في ذلك إلى تجديد القبض؛ لأنه إذا وهب شيء لطفل تتم الهبة بقبض هؤلاء إياه على ما هو مذكور في المادة (842) وبما أنه يكفي كون الموهوب في يد الموهوب له بمقتضى المادة (846) ولا يلزم تجديد القبض فلا لزوم لقبض آخر (الهداية، مجمع الأنهر، الأنقروي) ؛ لأن قبض الإنسان ماله بما أنه قبض وبما أن القبض في الهبة  قبض أمانة أيضا فيقوم أحدهما مقام الآخر كما هو مذكور في شرح المادة (846) (النهاية) ."

(الكتاب السابع الهبة،‌‌الباب الأول بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة،المادة 851 يملك الصغير المال الذي وهبه إياه وصيه،421/2ط:دار الجيل)    

وفیه أ یضاً

"المادة 852 الهبة للطفل ،إذا وهب أحد شيئا لطفل تتم الهبة بقبض وليه أو مربيه."

(الكتاب السابع الهبة،‌‌الباب الأول بيان المسائل المتعلقة بعقد الهبة،المادة 852 الهبة للطفل،2/422،ط:دار الجيل)

 فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144510100905

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں